پڑ گیا ہے کہ یہ کھاؤ پیو ہے۔ اس سے کس تقویٰ اور نیک بختی کی امید ہوسکتی ہے ہمارؔ ے سیّد و مولیٰ افضل الانبیاء خیر
الاصفیاء محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقویٰ دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں اور بیعت کرنے کے لئے آتی تھیں بلکہ دور
بٹھا کر صرف زبانی تلقین توبہ کرتے تھے مگر کون عقلمند اور پرہیز گار ایسے شخص کو پاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کے چھونے سے پرہیز نہیں کرتا ایک کنجری خوبصورت ایسی قریب
بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے کبھی ہاتھ لمبا کر کے سر پر عطر مل رہی ہے کبھی پیروں کو پکڑتی ہے اور کبھی اپنے خوشمنا اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کررہی ہے یسوع
صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تو اس کو جھڑک دیتے ہیں۔ اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد اور ایک خوبصورت کسبی
عورت سامنے پڑی ہے۔ جسم کے ساتھ جسم لگا رہی ہے۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ افسوس کہ یسوع
کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا۔ کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور ناز و ادا کرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور
شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت مجھ سے دور رہ اور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف
میں سے تھی اور زنا کاری میں سارے شہر میں مشہور تھی۔