دور رہنا چاہتا ہے۔ اس بات میں آپ کے ساتھ کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا کمال کے برخلاف ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام تقویٰ کا نمونہ نہ دکھلاویں تو اور کون دکھلاوے جو خدا ترسی میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے وہی سب سے بڑھ کر تقویٰ بھی اختیار کرتا ہے وہ بدی سے اپنے تئیں دور رکھتا ہے وہ ان راہوں کو چھوڑ دیتا ہے جس میں بدی کا احتمال ہوتا ہے مگر آپ کے یسوع صاحب کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک ان کے حال پر روویں کیا یہ مناسب تھا کہ وہ ایک زانیہ عورت کو یہ موقعہ دیتا کہ وہ عین جوانی اور حسن کی حالت میں ننگے سر اس سے مل کر بیٹھتی اور نہایت ناز اور نخرہ سے اس کے پاؤں پر اپنے بال ملتی اور حرام کاری کے عطر سے اس کے سر پر مالش کرتی اگر یسوع کا دل بدخیالات سے پاک ہوتا تو وہ ایک کسبی عورت کو نزدیک آنے سے ضرور منع کرتا مگر ایسے لوگوں کو حرام کار عورتوں کے چھونے سے مزہ آتا ہے۔ وہ ایسے نفسانی موقعہ پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سنا کرتے۔ دیکھو یسوع کو ایک غیرت مند بزرگ نے نصیحت کے ارادہ سے روکنا چاہا کہ ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں مگر یسوع نے اس کے چہرہ کی ترش روئی سے سمجھ لیا کہ میری اس حرکت سے یہ شخص بیزار ہے تو رندوں کی طرح اعتراض کو باتوں میں ٹال دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ کنجری بڑی اخلاص مند ہے۔ ایسا اخلاص تو تجھ میں بھی نہیں پایا گیا۔ سبحان اللہ یہ کیا عمدہ جواب ہے۔ یسوع صاحب ایک زنا کار عورت کی تعریف کر رہے ہیں کہ بڑی نیک بخت ہے۔ دعویٰ خدائی کا اور کام ایسے۔ بھلا جو شخص ہر وقت شراب سے سرمست رہتا ہے اور کنجریوں سے میل جول رکھتا ہے اور کھانے پینے میں بھی ایسا اول نمبر کا جو لوگوں میں یہ اس کا نام ہی