بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحمدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الکَرِیم وَعَلٰی عَبْدِہ الْمَسیحِ الْمَوْعُوْدِ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ ایک الہام کی تشریح ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ کو کچہری جانے سے پیشتر اعلیٰحضرت نے ہمارے مخدوم جناب خان محمد عجب خان صا حب آف زیدہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ نے رخصت لی ہے ہمارے پاس بھی رہنا چاہیے خانصاحب نے دارالامان آنے کا وعدہ کیا اورتھوڑی دیر کے بعد پو چھاکہ انْتَ مِنِّیْ وَانَا مِنْک َپر لوگ اعتراضات کرتے ہیں ۔اس کا کیا جواب دیا جائے ؟ فرمایا:۔ اَنْتَ مِّنیْ تو بالکل صاف ہے اس پر کسی قسم کا اعتراض اور نکتہ چینی نہیں ہوسکتی میرا ظہو امحظ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل سے ہے اور اسی سے ہے۔ دوسرا حصّہ اس الہام کا کسی قدر شرح طلب ہے سو یاد رکھنا چاہیئے کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا قرآن شریف میں بار بار اس کا ذکر ہوا ہے وحدٗ لاشریک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ صفات میں نہ افعال الٰہیہ میں ۔ سچی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمانِ کامل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان ہر قسم کے شرک سے پاک نہ ہو ۔توحید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو کیا بااعتبار ذات اور کیا بااعتبار صفات کے اور افعال کے بے مثل مانے نادان میرے اس الہام پر تو اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے نہیں کہ اس کی حقیقت کیا