(۲) دوسری قسم کے بیٹے کا انجیل میں ایک بے ہودہ بیان ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ میں ہے یعنی اس ورس میں بیٹا تو ایک طرف ہریک کو خواہ کیسا ہی بدمعاش ہو خدا بنادیا ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ نوشتوں کا باطل ہونا ممکن نہیں۔ غرض انجیل نے شخصی تقلید سے اپنی قوم کا ایک مشہور لفظ لے لیا علاوہ اس کے یہ بات خود غلط ہے کہ خدا کو باپ قرار دیا جاوے اور اس سے زیادہ تر نادان اور بے ادب کون ہوگا کہ باپ کا لفظ خدا تعالیٰ پر اطلاق کرے چنانچہ ہم اس بحث کو بفضلہ تعالیٰ کتاب منن الرحمن میں بتفصیل بیان کرچکے ہیں۔ اس سے آپ پر ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ پر باپ کا لفظ اطلاق کرنا نہایت گندہ اور ناپاک طریق ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے سمجھانے کے لئے یہ تو کہا کہ خدا تعالیٰ کو ایسی محبت سے یاد کرو جیسا کہ باپوں کو یاد کرتے ہو مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کو باپ سمجھ لو۔ اور انجیل میں ایک اور نقص یہ ہے کہ اس نے یہ تعلیم کسی جگہ نہیں دی کہ عبادت کرنے کے وقت اعلیٰ طریق عبادت یہی ہے کہ اغراض نفسانیہ کو درمیان سے اٹھادیا جاوے بلکہ اگر کچھ سکھلایا تو صرف روٹی مانگنے کے لئے دعا سکھلائی۔ قرآن شریف نے تو ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ ۔۱؂یعنی ہمیں اس راہ پر قائم کر جو نبیوں اور صدّیقوں کی اور عاشقان الٰہی کی راہ ہے۔ مگر انجیل یہ سکھلاتی ہے کہ ہماری روزینہ کی روٹی آج ہمیں بخش۔ ہم نے تمام انجیل پڑھ کر دیکھی اس میں اس اعلیٰ تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے۔