محمد صاحب کی ایک غیر عورت پر نظر پڑی۔ تو آپ نے گھر میں آکر اپنی بیوی سودہ سے خلوت کی پس جو
شخص غیر عورت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہیں آسکتا۔ جب تک اپنی عورت سے خلوت نہ کرے اور اپنے نفس کی حرص کو پورا نہ کرے تو وہ فرد اکمل کیونکر ہوسکتا ہے۔
اقولمیں کہتا ہوں
کہ جس حدیث کے معترض نے الٹے معنے سمجھ لئے ہیں وہ صحیح مسلم میں ہے اور ؔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ عن جابر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی امرأۃ فاتی امرأتہ زینب وھی تمعسُ منیّۃ
لھا فقضی حاجتہ۔ اس حدیث میں سودہؓ کا کہیں ذکر نہیں اور معنے حدیث کے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا۔ پھر اپنی بیوی زینبؓ کے پاس آئے اور وہ چمڑہ کو
مالش کر رہی تھی۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت پوری کی۔ اب دیکھو کہ حدیث میں اس بات کا نام و نشان نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کا حسن و جمال پسند
آیا بلکہ یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ عورت جوان تھی یا بڈھی تھی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت نے اپنی بیوی سے آکر صحبت کی۔ الفاظ حدیث صرف اس قدر ہیں کہ اس سے اپنی حاجت کو پورا
کیا اور لفظ قَضٰی حَاجَتَہ‘ لغت عرب میں مباشرت سے خاص نہیں ہے۔ قضاء حاجت پاخانہ پھرنے کو بھی کہتے ہیں اور کئی معنوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے صحبت کی تھی۔ ایک عام لفظ کو کسی خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے۔ علاوہ اس کے