طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح
نے خدا کے بیٹے کا لفظ دو طور سے استعمال کیا ہے (۱) اوّل تو یہ کہ مسیح کے وقت میں یہ قدیم رسم تھی کہ جو شخص رحم اور نیکی کے کام کرتا اور لوگوں سے مروت اور احسان سے پیش آتا
تو وہ واشگاف کہتا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور اس لفظ سے اس کی یہ نیت ہوتی تھی کہ جیسے خدا نیکوں اور بدوں دونوں پر رحم کرتا ہے اور اس کے آفتاب اور ماہتاب اور بارش سے تمام بُرے بھلے
فائدہ اٹھاتے ہیں ایسا ہی عام طور پر نیکی کرنا میری عادت ہے لیکن فرق اس قدر ہے کہ خدا تو ان کاموں میں بڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں۔ سو انجیل نے بھی اس لحاظ سے خدا کو باپ ٹھہرایا کہ وہ بڑا
ہے اور دوسروں کو بیٹا ٹھہرایا یہ نیت کرکے کہ وہ جھوٹے ہیں مگر اصل امر میں خدا سے مساوی کیا یعنی کمیّت میں کمی بیشی کو مان لیا مگر کیفیت میں باپ بیٹا ایک رہے اور یہ ایک مخفی شرک تھا
اس لئے کامل کتاب یعنی قرآن شریف نے اس طرح کی بول چال کو جائز نہیں رکھا یہودیوں میں جو ناقص حالت میں تھے جائز تھا اور انہیں کی تقلید سے یسوع نے اپنی باتوں میں بیان کردیا چنانچہ
انجیل کے اکثر مقامات میں اسی قسم کے اشارے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی طرح رحم کرو خدا کی طرح صلح کار بنو خدا کی طرح دشمنوں سے بھی ایسی ہی بھلائی کرو جیسا کہ دوستوں سے تب تم
خدا کے فرزند کہلاؤ گے کیونکہ اس کے کام سے تمہارا کام مشابہ ہوگا صرف اتنا فرق رہا کہ وہ بڑا بمنزلہ باپ خدا اور تم چھوٹے بمنزلہ بیٹے کے ٹھہرے سو یہ تعلیم درحقیقت یہودیوں کی کتابوں
سے لی گئی تھی اسی لئے
یہودیوں کا ابؔ تک یہ اعتراض ہے کہ یہ چوری اور سرقہ ہے بائبل سے چرا کر یہ باتیں انجیل میں لکھ دیں۔ بہرحال یہ تعلیم ایک تو ناقص ہے اور دوسرے اس طرح کا بیٹا
محبت ذاتی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔