ا یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی
کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف
طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الٰہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الٰہی اور رضاء الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے مگر اس جگہ سوال یہ ہے
کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے ہم ہر یک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہرگز بیان نہیں کیا۔ خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا
نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تاانسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے دنیا میں
بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے
خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خداتعالیٰ کی عبادت کریں لیکن انجیل میں تو صاف شہادتیں موجود ہیں کہ آپ کے یسوع صاحب کے حواری لالچی اور کم عقل تھے پس جیسی ان
کی عقلیں اور ہمتیں تھیں ایسی ہی ان کو ہدایت بھی ملی اور ایسا ہی یسوع بھی ان کو مل گیا۔ جس نے اپنی خودکشی کا دھوکا دے کر سادہ لوحوں کو عبادت کرنے سے روک دیا۔
اگر کہو کہ انجیل نے
یہ سکھلا کر کہ خدا کو باپ کہو محبت ذاتی کی