معدوم ہوکر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہوجاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۱؂ غرض آیت ۲؂ کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے۳؂ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے*۔ اور پھر فرمایا۴؂ یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدّعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا * نوٹ: نفس کے بیچنے میں یہ بات داخل ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اپنے آرام کو جلال الٰہی کے ظاہر کرنے اور دین کی خدمت میں وقف کردیوے۔ منہ