ہے۔ اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔ اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ایتاء ذی القربٰی* ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات الٰہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہوگئے پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنیؔ ماں سے ہوتی ہے۔ پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی *نوٹ: مرتبہ ایتاء ذی القربٰی متواتر احسانات کے ملاحظہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس مرتبہ میں کامل طور پر عابد کے دل میں محبت ذات باری تعالیٰ کی پیدا ہوجاتی ہے اور اغراض نفسانیہ کا رائحہ اور بقیہ بالکل دور ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت ذاتی کا اصل اور منبع دو ہی چیزیں ہیں (۱) اوّلکثرت سے مطالعہ کسی کے حسن کا اور اس کے نقوش اور خال و خط اور شمائل کو ہر وقت ذہن میں رکھنا اور بار بار اس کا تصور کرنا (۲) دوسریکثرت سے تصور کسی کے متواتر احسانات کا کرنا اور اس کے انواع و اقسام کے مروتوں اور احسانوں کو ذہن میں لاتے رہنا اور ان احسانوں کی عظمت اپنے دل میں بٹھانا۔