پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقعہ کے مناسب حال کارروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے بعض وقت اس کو شربت پلاتا ہے اور بعض اوقات ایک حاذق ڈاکٹر کی طرح اس کا ہاتھ یا پیر کاٹنے میں اس کی زندگی دیکھتا ہے اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے اگر تم ایک دن ایک بڑے شفاخانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہریک قسم کے مریض آتے ہوں۔ بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنے تمہاری سمجھ میں آجائیں گے۔ سو تعلیم قرآنی ہمیں ؔ یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3۱؂ یعنی اے کافرو یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ پھر فرماتا ہے3 33۲؂ یعنے کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے 33 ۳؂ یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے