تَحَبَّبَ الْحِمَارُ اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہوگیا۔ تو کہتے ہیں شربت الابل حتّٰی
تحببت اور حَبّجو دانہ کو کہتے ہیں۔ وہ بھی اسی سے نکلا ہے۔ جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بناء پر اِحْبَاب سونے کو بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جو دوسرے
سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حِسّ اس کو باقی نہیں رہے گی پھر جبکہ محبَّت کی یہ حقیقت ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان
سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو دوسرے لفظوں میں اس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جاؤ۔ خوب تعلیم ہے۔ ایسی تعلیم کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف
سے ہوسکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچاوے۔
اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا
حرام ہے تو کس قسم کا خلق ان سے برتنا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ ان پر کمال درجہ کی شفقت چاہئے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی
جذامیوں اور اندھوں اور لولوں اور لنگڑوں وغیرہ دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محب اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظر استحسان دیکھتا ہے اور رغبت
رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہوجائیں مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظر
خوف و عبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شائد وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے
اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے