کرنی چاہئے اور شیطان کے جانشینوں سے وہ پیار کرو جو رحمٰن کے جانشینوں سے کرنا چاہئے افسوس کہ پہلے تو انجیل کے
باطل ہونے پر ہمارے پاس یہی ایک دلیل تھی کہ وہ ایک عاجز مشت خاک کو خدا بناتی ہے اب یہ دوسری دلائل بھی پیدا ہوگئیں کہ اس کی دوسری تعلیمیں بھی گندی ہیں کیا یہ پاک تعلیم ہوسکتی ہے کہ
شیطان سے ایسی ہی محبت کرو جیسا کہ خدا سے اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ یسوع کے منہ سے سہوًا یہ باتیں نکل گئیں کیونکہ وہ الٰہیات کے فلسفہ سے ناواقف تھا تو یہ عذر نکما اور فضول ہوگا
کیونکہ اگر وہ ایسا ہی ناواقف تھا تو کیوں اس نے قوم کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا۔ کیا وہ بچہ تھا اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل
سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے سچی محبت
کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور
اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔ محبّتایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہوجانا ہے چنانچہ
عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ