بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا *ہے۔ صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں۔ ہاں اس
وقت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
۱ یعنی خدا نے ظاہری اور
اندرونی گناہ دونوں حرام کر دیئے۔ اب میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ عمدہ تعلیم بھی انجیل میں موجود نہیں کہ تمام عضووں کے گناہ کا ذکر کیا ہو اور عزیمت اور خطرات میں فرق کیا ہو اور ممکن نہ
تھا کہ انجیل میں یہ ؔ تعلیم ہوسکتی۔ کیونکہ یہ تعلیم نہایت لطیف اور حکیمانہ اصولوں پر مبنی ہے اور انجیل تو ایک موٹے خیالات کا مجموعہ ہے جس سے اب ہر یک محقق نفرت کرتا جاتا ہے ہاں آپ
کے یسوع صاحب نے پردہ پوشی کے لئے یہ خوب تدبیر کی کہ لوگوں کو باتوں باتوں میں سمجھا دیا کہ میری تعلیم کچھ اچھی نہیں۔ آئندہ اس پر مضحکہ ہوگا بہتر ہے کہ تم ایک اور آنے والے کا انتظار
کرو جس کی تعلیم معارف کے تمام مراتب کو پورا کرے گی مگر شاباش اے پادری صاحبان آپ نے اس وصیّت پر خوب ہی عمل کیا جس تعلیم کو خود آپ کے یسوع صاحب بھی قابل اعتراض ٹھہراتے
ہیں اور ایک آئندہ آنے والے نبی مقدس کی خوشخبری دیتے ہیں اسی ادھوری تعلیم پر آپ
*نوٹ:ثواب اس وقت حاصل کرتے ہیں جب ہم دلی خیالات کا جو معصیت کی رغبت دیتے ہیں۔ اعمال صالحہ
کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ان خیالات کے برعکس عمل میں لاتے ہیں۔ منہ