کی طرف سے نہیں ہے اور حق بات یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی ہے کہ انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گناہ گار نہیں کرتے بلکہ عند اللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین۳ ہی قسم ہیں (۱) اوّل یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں (۲) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کے حرکات صادر ہوں (۳) تیسرے یہ کہ دل نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بد ضرور کروں گا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱؂ یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا مگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہوگا کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے۔ ۲؂ یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی۔ اب دیکھو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں