تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور تو ربانی سنتوں میں تغیر اور تبدل نہیں پائے گا۔ اسؔ فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہوجائیں جو غضب الٰہی کو مشتعل کریں اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہو جائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو۔ یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے اور پھر فرمایا کہ مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے (یہ اس عاجز کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا۔ اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتح یاب ہو نہ دشمن اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کردے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا اور اس کو مردہ کر کے پھینک دے گا اور اس کی لاش لوگوں کو دکھا دے گا اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن بھی۔ اور پھر فرمایا کہ وجہ مذکورہ سے عذاب موت کی تاخیر ہماری سنت ہے جس کو ہم نے ذکر کر دیا اب جو چاہے وہ راہ اختیار کر لے جو اس کے رب کی طرف جاتی ہے۔ اس میں بدظنی کرنے والوں پر زجر اور ملامت ہے اور نیز اس میں یہ بھی تفہیم ہوئی ہے کہ جو سعادت مند لوگ ہیں اور جو خدا ہی کو چاہتے ہیں اور کسی بخل اور تعصب یا جلد بازی یا سوء فہم کے اندھیرے میں مبتلا نہیں وہ اس بیان کو قبول کریں گے اور تعلیم الٰہی کے موافق اس کو پائیں گے لیکن جو اپنے نفس اور اپنی نفسانی ضد کے پیرو یا حقیقت شناس نہیں وہ بیباکی اور نفسانی ظلمت کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کریں گے۔ الہام الٰہی کا ترجمہ معہ تفہیمات الٰہیہ کے کیا گیا جس کا ماحصل یہی ہے کہ قدیم سے الٰہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بے باک اور شوخ ہوکر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے۔ تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکم ہلاکت لکھا جاتا ہے عذاب الٰہی کے لئے یہی قانون قدیم ہے اور یہی سنت مستمرہ اور یہی غیر تبدل قاعدہ کتاب الٰہی نے بیان کیا ہے اور غور کرنے سے ظاہر ہو گا