ابؔ یاد رہے کہ’’ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے۔ جو اس
بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا۔ ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا کیونکہ وہی دوسرے عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوکر پندرہ دن
جھگڑتا رہا مگر درحقیقت اس لفظ کے حصہ دار دوسرے معاون اور محرک اور ان کے سرگروہ بھی تھے کیونکہ عرفاًفریق اس تمام گروہ کا نام ہے جو ایک کام بالمقابل کرنے والا یا اس کام کا معاون یا
اس کام کا بانی یا مجوز یا حامی ہو اور پیشگوئی کی کسی عبارت میں یہ نہیں لکھا گیا کہ فریق سے مراد صرف عبد اللہ آتھم ہے‘‘۔ ہاں میں نے جہاں تک الہام کے معنے سمجھے وہ یہ تھے کہ جو
شخص اس فریق میں سے بالمقابل باطل کی تائید میں بنفس خود بحث کرنے والا ہے اس کے لئے ہاویہ سے مراد سزائے موت ہے لیکن الہامی لفظ صرف ہاویہ ہے اور ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ حق کی
طرف رجوع کرنے والا نہ ہو۔ اور حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی قید ایک الہامی شرط ہے جیسا کہ میں نے الہامی عبارت میں صاف لفظوں میں اس شرط کو لکھا تھا اور یہ بات بالکل سچ اور یقینی
اور الہام کے مطابق ہے کہ اگر مسٹر عبد اللہ کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیر اسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی حصہ نہ لیتا تو
اسی میعاد کے اندر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے
کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گِرا لیکن اُس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا جس کا نام موت ہے
اور یہ ظاہر ہے کہ الہامی لفظوں اور شرطوں میں سے کوئی ایسا لفظ یا شرط نہیں ہے جو بے تاثیر ہو یا جس کا کسی قدر موجود ہو جانا اپنی تاثیر پیدا نہ کرے۔ لہٰذا ضرور تھا کہ جس قدر مسٹر عبد
اللہ آتھم کے دل نے حق کی عظمت کو قبول کیا اس کا فائدہ اس کو پہنچ جائے سو خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور مجھے فرمایا اطلع اللّٰہ علی ھمہ وغمہ۔ ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا و لا تعجبوا و لا تحزنوا و
انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین و بعزتی و جلالی انک انت الاعلٰی۔ و نمزق الاعداء کل ممزق و مکر اولئک ھو یبور۔ انا نکشف السر عن ساقہ یومئذ یفرح المؤمنون۔ ثلّۃ من الاولین و ثلّۃ من الآخرین و ھذہ تذکرۃ
فمن شاء اتخذ الٰی ربہ سبیلا۔ ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بیباکی اور سخت گوئی اور