حیلوں کی اس جگہ ضرورت ہی کیا تھی ۔ تنقیح طلب تو صرف اس قدر امر تھا کہ شیخ مذکور اپنے ان بیانات میں جو جابجا شائع کر چکا ہے صادق ہے یا کاذب اور یہ عاجز بالمقابل عربی بلیغ اورتفسیر لکھنے میں شیخ سے کم رہتا ہے یا زیادہ ۔ کم رہنے کی حالت میں مَیں نے اقرار کردیا تھا کہ مَیں اپنی کتابیں جلا دوں گا اورتوبہ کروں گا اورشیخ مذکور کی رعایت کے لئے اِس مقابلہ کے بارے میں دِن بھی چالیس۴۰ مقرر کر دئے تھے جن کے معنی شیخ نے خباثت کی راہ سے یہ کئے کہ گویا میرا چالیس دن کے مقررکرنے سے یہ منشاء ہے کہ شیخ مذکورچالیس دن تک مر جائے گا۔ حالانکہ صاف لکھا تھا کہ چالیس دن تک یہ مقابلہ ہو نہ کہ یہ کہ چالیس دن کے بعد شیخ اِس جہان سے انتقال کرجائے گا ۔ اب چونکہ شیخ جی نے اس طور پر مقابلہ کرنا نہ چاہا اوربیہودہ طور پر بات کو ٹال دیا اِس لئے ہمیں اب اِس مقابلہ کیلئے دوسرا پہلو بدلنا پڑا۔ اورہم فراست ایمانیہ کے طور پر یہ پیشگوئی کرسکتے ہیں کہ شیخ صاحب اِس طریق مقابلہ کو بھی ہر گز قبول نہیں کرینگے اوراپنی پرانی عادت کے موافق ٹالنے کیلئے کوشش کرینگے۔ بات یہ ہے کہ شیخ صاحب علم ادب اورتفسیر سے سراسرعاری اورکسی نامعلوم وجہ سے مولوی کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں مگر اب شیخ صاحب کے لئے طریق آسان نکل آیا ہے کیونکہ اس رسالہ میں صِرف شیخ صاحب ہی مخاطب نہیں بلکہ وہ تمام مکفر مولوی بھی مخاطب ہیں جو اس عاجز متبع اللہ اوررسولؐ کو دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں۔ سو لازم ہے کہ شیخ صاحب نیاز مندی کے ساتھ اُن کی خدمت میں جائیں اوراُن کے آگے ہاتھ جوڑیں اوررودیں اوراُن کے قدموں پر گریں تایہ لوگ اس نازک وقت میں اُن کی عربی دانی کی پَردہ دری سے ان کو بچالیں کچھ تعجب نہیں کہ کسی کو اُن پر رحم آجاوے۔ ہاں اس قدرضرور ہے کہ اگر حنفی مولوی کے پاس جائیں تو اُسکو کہہ دیں کہ اب میں حنفی ہوں اوراگر شیعہ کی خدمت میں جائیں تو کہہ دیں کہ اب میں شیعیان اہلبیت میں سے ہوں چنانچہ یہی وتیرہ آجکل شیخ جی کا سُنابھی جاتا ہے لیکن مشکل یہ کہ اس عاجز کو شیخ جی اورہر یک مکفر بداندیش کی نسبت الہام ہو چکا ہے