اطلاع کے لئے لکھتا ہوں کہ اگر میاں بطالوی نے میرے ان قصائد اربعہ اورتفسیر سورہ فاتحہ کا مقابلہ کردکھلایا اورمنصفوں کی رائے میں وہ قصائد اوروہ تفسیراُن کی صرفی نحوی اوربلاغت کی غلطیوں سے مُبرّا نکلی تو میں ہر یک غلطی کی نسبت جو ان قصائد اورتفسیر میں پائی جائے یا میری کسی پہلی عربی تالیف میں پائی گئی ہو پانچ روپیہ فی غلطی شیخ بطالوی کی نذر کرونگا اورمیں ناظرین کو یقین دلاتا ہوں کہ شیخ بطالوی علم عربیت سے بکلی بے نصیب ہے غلطیوں کا نکالنا ان لوگوں کا کام ہوتا ہے جو کلام جدید اور قدیم عرب پر نظر محیط رکھتے ہوں اور محاورہ اور عدم محاورہ پر انکو اطلاع ہو۔ اورہزارہا اشعار عرب کے ان کی نگاہ کے سامنے ہوں اور تتبع اور استقراء کا ملکہ ان کو حاصل ہو مگر یہ بیچارہ شیخ جس نے اُردو نویسی میں ریش سفید کی ہے علم ادب اور بلاغت فصاحت کو کیا جانے ۔ کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ کوئی دوچار سو شعر عربی میں اس بزرگ نے نظم کرکے شائع کئے ہوں اورمجھے تو ہرگز ہرگز اس قدر بھی امید نہیں کہ ایک شعر بلیغ وفصیح بھی بنا سکتا ہو یا ایک سطر لوازم بلاغت وفصاحت کے ساتھ عربی میں لکھ سکتا ہو ہاں اُردو خوان ضرور ہے۔ ناظرین غورسے دیکھیں کہ اس بزرگ کی عربیت کی حقیقت کھولنے کیلئے اِس عاجز نے پہلے اس سے اپنے اشتہار میں لکھا تھا کہ شیخ مذکور میرے مقابل پر ایک تفسیرکسی سورۃ قرآن کریم کی بلیغ وفصیح عبارت میں لکھے اورنیز سو۱۰۰ شعر کا ایک قصیدہ بھی میرے مقابل پر بیٹھ کر تحریر کرے۔ اگر شیخ مذکور کو عربیت میں کچھ بھی دخل ہوتا تو وہ بڑی خوشی سے میرے مقابلہ میں آتااورپہلو بہ پہلو بیٹھ کر اپنی عربی دانی کی لیاقت دکھلاتا۔ لیکن اسکے اشاعۃ السنہ نمبر۸ جلد۱۵کو صفحہ۱۹۰سے۱۹۲ تک بغور پڑھنا چاہئے کہ کیونکر ا س نے رکیک شرطوں سے اپنا پیچھا چھوڑایا ہے۔ چنانچہ ان صفحات میں لکھا ہے کہ اس مقابلہ سے پہلے کتاب دافع الوساوس کی عربی عبارت کی غلطیاں ثابتؔ کریں گے اورنیز کتاب فتح اسلام اورتوضیح مرام کے کلمات کفروالحاد