اوروہ لوگ بڑے اعلیٰ درجے کے عالم فاضل ہیں کِسؔ قدر کاذب اوردروغگو اوردین اور دیانت سے دور ہیں اگرمیاں بطالوی اپنے ان بیانات اورہذیانات میں جو اُس نے اِس عاجز کے نادان اورجاہل اورمُفتری ہونے کے بارہ میں اپنے اشاعۃ السنۃ میں شائع کئے ہیں دیانتدار اور راست گو ہے تو کچھ شک نہیں کہ اب بلا حجت وحیلہ اِن قصائد اورتفسیر کے مقابلہ پر اپنی طرف سے اسی قدر اورتعداد اشعار کے لحاظ سے چارقصیدے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اور نیزسورۃ فاتحہ کی تفسیر بھی شائع کرے گا۔ تا سیہ رُوئے شود ہرکہ دروغش باشد۔ اورایسا ہی وہ تمام مولوی جن کے سر میں تکبر کا کیڑا ہے اور جو اِس عاجز کو باوجود باربار اظہار ایمان کے کافر اورمُرتد خیال کرتے ہیں اوراپنے تئیں کچھ چیز سمجھتے ہیں اِس مقابلہ کیلئے مدعو ہیں چاہے وہ دہلی میں رہتے ہوں جیسا کہ میاں شیخ الکل اوریا لکھوکے میں جیسا کہ میاں محی الدین بن مولوی محمد صاحب اوریا لاہور میں یا کسی اور شہر میں رہتے ہوں اور اب ان کی شرم اور حیا کا تقاضا یہی ہے کہ مقابلہ کریں اورہزار روپیہ لیویں ان کو اختیار ہے کہ بالمقابل جوہر علمی دکھلانے کے وقت ہماری غلطیاں نکالیں ہماری صرف ونحو کی آزمائش کریں اورایسا ہی اپنی بھی آزمائش کرادیں لیکن یہ بات بے حیائی میں داخل ہے کہ بغیر اِسکے جو ہمارے مقابل پر اپنا بھی جوہر دکھلاویں یکطرفہ طورپر اُستاد بن بیٹھیں ۔ اِس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ شیخ بطالوی نے جس قدر اس عاجز کی بعض عربی عبارات سے غلطیاں نکالی ہیں اگر ان سے کچھ ثابت ہوتا تو بس یہی کہ اب اس شیخ کی خیرگی اوربے حیائی اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ صحیح اس کی نظر میں غلط اورفصیح اس کی نظر میں غیرفصیح دکھائی دیتا ہے۔ اور معلوم نہیں کہ یہ نادان شیخ کہاں تک اپنی پردہ دری کرانا چاہتا ہے اورکیا کیا ذِلّتیں اِسکے نصیب ہیں بعض اہلِ علم ادیب اِس کی یہ باتیں سن کر اوراس کی اس قسم کی نکتہ چینیوں پر اطلاع پاکراس پر روتے ہیں کہ یہ شخص کیوں اس قدر جہل مرکب کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مَیں نے پہلے بھی لکھ دیا ہے اور اب پھرؔ ناظرین کی