اگر قرآؔ ن کریم میں ایسے عجائبات اورخواص مخفیہ تھے تو پہلوں کا کیا گناہ تھا کہ اُن کو اِن اسرار سے محروم رکھا گیا ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بکلی اسرار قرآنی سے محروم تو نہیں رہے بلکہ جس قدر معلومات عرفانیہ خداتعالیٰ کے ارادہ میں ان کے لئے بہتر تھے وہ اُن کو عطاکئے گئے اور جس قدراس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق اِس زمانہ میں اسرار ظاہر ہونے ضروری تھے وہ اس زمانہ میں ظاہر کئے گئے۔ مگر وہ باتیں جومدارایمان ہیں اورجن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے وہ ہر زمانہ میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں۔ میں متعجب ہوں کہ اِن ناقص الفہم مولویوں نے کہاں سے اورکس سے سُن لیا کہ خداتعالیٰ پر یہ حق واجب ہے کہ جو کچھ آئندہ زمانہ میں بعض آلاء ونعماء حضرت باری عزّاسمہٗ ظاہر ہوں پہلے زمانہ میں بھی ان کا ظہور ثابت ہو بلکہ اس بات کے ماننے کے بغیر کسی صحیح الحواس کو کچھ بن نہیں پڑتا کہ بعض نعماء الٰہی پچھلے زمانہ میں ایسے ظاہرہوتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں ان کا اثر اوروجود نہیں پایا جاتا ۔ دیکھو جس قدر صدہا نباتات جدیدہ کے خواص اب دریافت ہوئے ہیں یا جس قدر انسانوں کے آرام کے لئے طرح طرح کے صناعات اورسواریاں اورسہولت معیشت کی باتیں اب نکلی ہیں پہلے اُن کا کہاں وجود تھا۔ اوراگر یہ کہا جائے کہ ایسے حقائق دقائق قرآنی کا نمونہ کہاں ہے جو پہلے دریافت نہیں کئے گئے تو اِسکا جواب یہ ہے کہ اِس رسالہ کے آخر میں جو سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے اِسکے پڑھنے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ اِس قسم کے حقائق اورمعارف مخفیہ قرآن کریم میں موجود ہیں جو ہریک زمانہ میں اُس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ہیں۔ بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ یہ قصائد اور یہ تفسیر کسی غرض خود نمائی اورخود ستائی سے نہیں لکھی گئی بلکہ محض اس غرض سے کہ تا میاں بطالوی اوراُن کے ہم خیال لوگوں کی نسبت منصف لوگوں پر یہ ظاہر ہو کہ وہ اپنے اِس اصرار میں کہ یہ عاجز مُفتری اوردجّال اور ساتھ اِس کے بالکل علم ادب سے بے بہرہ اورقرآن کریم کے حقائق ومعارف سے بے نصیب ہے