سو اِؔ ن معنوں کے رو سے اس آیت کا یہی مطلب ہوا کہ خواص مخلوقات بیحد اوربے نہایت ہیں اور جبکہ ہریک چیز اور ہریک
مخلوق کے خواص بیحد اوربے نہایت ہیں اورہریک چیز غیرمحدود عجائبات پر مشتمل ہے تو پھر کیونکر قرآن کریم جو خداتعالیٰ کا پاک کلام ہے صرف اِن چند معانی میں محدود ہوگاکہ جو چالیس پچاس یا
مثلاً ہزار جزو کی کسی تفسیر میں لکھے ہوں یا جس قدر ہمارے سیّدومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمانہ محدود میں بیان کئے ہوں۔ نہیں بلکہ ایسا کلمہ مُنہ پر لانامیرے نزدیک قریب قریب کفر
کے ہے۔ اگر عمدً ااُس پر اصرار کیا جائے تو اندیشہ کفر ہے ۔ یہ سچ ہے کہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے معنے بیان فرمائے ہیں وہی صحیح اورحق ہیں مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ
جو کچھ قرآن کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اُن سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں۔ یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی غیر
محدود ہ عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اوران کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لئے اُترا ہے جواُمّی تھے اوربھی اِس امرکو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بکلّی بے بہرہ
ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض اُمّیوں کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہریک رُتبہ اور طبقہ کے انسان اُن کی اُمّت میں داخل ہیں اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے3 ۱ پس اس
آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہریک استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے اور درحقیقت آیت 3ْ3 ۲ میں بھی اِسی کی طرف اشارہ ہے۔ پس یہ خیال کہ گویا جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
نے قرآن کریم کے بارہ میں بیان فرمایا اُس سے بڑھ کر ممکن نہیں بدیہی البطلان ہے۔ ہم نہایت قطعی اوریقینی دلائل سے ثابت کرچکے ہیں کہ خداتعالیٰ کی کلام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے
عجائبات غیر محدود اورنیز بے مثل ہوں ۔ اوراگر یہ اعتراض ہو کہ