اب ؔ اس مقام میں ثابت ہوا کہ قرآن کریم صرف اپنی بلاغت وفصاحت ہی کے رو سے بینظیر نہیں بلکہ اپنی ان تمام خوبیوں کی رُو سے بینظیر ہے جن خوبیوں کا جامع وہ خود اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور یہی صحیح بات بھی ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو کچھ صادر ہے اُس کی صرف ایک خوبی ہی بیمثل نہیں ہونی چاہئیے بلکہ ہر یک خوبی بیمثل ہوگی۔ بلاشبہ جو لوگ قرآن کریم کو غیر محدود حقایق اور معارف کا جامع نہیں سمجھتے وہ ماقدرواالقراٰن حق قدرہ میں داخل ہیں ۔خداتعالیٰ کی پاک اورسچی کلام کو شناخت کرنے کی یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بے مثل ہو کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز خداتعالیٰ سے صادر ہوئی ہے اگر مثلاً ایک جَو کا دانہ ہے وہ بھی بینظیر ہے اورانسانی طاقتیں اُسکا مقابلہ نہیں کرسکتیں اوربے مثل ہوناغیر محدود ہونے کو مستلزم ہے یعنی ہر یک چیز اُسی حالت میں بے نظیر ٹھہر سکتی ہے جبکہ اُس کی عجائبات اورخواص کی کوئی حد اور کنارہ نظر نہ آوے اورجیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں یہی خاصیت خداتعالیٰ کی ہریک مخلوق میں پائی جاتی ہے مثلاًاگر ایک درخت کے پتّے کی عجائبات کی ہزار برس تک بھی تحقیقات کی جائے تو وہ ہزار برس ختم ہو جائیگا مگر اس پتّے کے عجائبات ختم نہیں ہونگے اور اس میں سرّ یہ ہے کہ جو چیز غیر محدود قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس میں غیر محدود عجائبات اورخواص کا پَیدا ہونا ایک لازمی اورضروری امر ہے اور یہ آیت کہ33 ۱؂۔ اپنے ایک معنے کی رو سے اسی امر کی مؤید ہے کیونکہ مخلوقات اپنے مجازی معنوں کی رُو سے تمام کلمات اللہ ہی ہیں اوراسی کی بناء پر یہ آیت ہے کہ 3۲؂۔ کیونکہ ابن مریم میں دوسری مخلوقات میں سے کوئی امر زیادہ نہیں اگر وہ کلمۃ اللہ ہے تو آدم بھی کلمۃ اللہ ہے اور اس کی اولاد بھی کیونکہ ہریک چیز کن فیکون کے کلمہ سے پَیدا ہوئی ہے اِسی طرح مخلوقات کی صفات اورخواص بھی کلمات ر ّ بی ہیں یعنی مجازی معنوں کی رو سے کیونکہ وہ تمام کلمہ کن فیکون سے نکلے ہیں۔