رُوحاؔ نی دونوں طور کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ پھر بعد اس کے فرمایا کہ قرآن میں اِس قدر عظمت حق بھری ہوئی ہے کہ
خدا تعالیٰ کی آیتوں کے سُننے سے اُن کے دِلوں پر قشعریرہ پڑجاتا ہے اور پھر اُن کی جلدیں اوراُن کے دل یاد الٰہی کے لئے بہ نکلتے ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ کتاب حق ہے اور نیز میزان حق یعنی یہ
حق بھی ہے اور اِس کے ذریعہ سے حق شناخت بھی ہو سکتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے پانی اُتارا۔ پس اپنے اپنے قدر پر ہریک وادی بہ نکلی یعنی جس قدر دنیا میں طبائع انسانی
ہیں قرآن کریم اُنکے ہریک مرتبہ فہم اور عقل اور ادراک کی تربیت کرنیوالا ہے اور یہ امر مستلزم کمال تام ہے کیونکہ اِس آیت میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم اِس قدر وسیع دریائے معارف
ہے کہ محبت الٰہی کے تمام پیاسے اور معارف حقّہ کے تمام تشنہ لب اسی سے پانی پیتے ہیں۔اورپھر فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو اِسلئے اُتارا ہے کہ تا جو پہلی قوموں میں اختلاف ہوگئے ہیں اُن کا
اظہار کیا جائے ۔ اور پھر فرمایاکہ یہ قرآن ظلمت سے نور کی طرف نکالتا ہے ۔ اور اُس میں تمام بیماریوں کی شفا ہے اور طرح طرح کی برکتیں یعنی معارف اور انسانوں کو فائدہ پہنچانے واے اُمور
اس میں بھرے ہوئے ہیں اوراس لائق ہے کہ اِس کو تدبّر سے دیکھا جائے اورعقلمند اس میں غور کریں اور سخت جھگڑالو اِس سے مُلزم ہوتے ہیں اور ہریک شے کی تفصیل اِس میں موجود ہے اور یہ
ضرورت حقہ کے وقت نازل کیا گیا ہے۔ اور ضرورت حقہ کے ساتھ اُترا ہے اور یہ کتاب عزیز ہے باطل کو اِس کے آگے پیچھے راہ نہیں اور یہ نور ہے جس کے ذریعہ سے ہدایت دی جاتی ہے اِس
میں ہریک شے کا بیان موجود ہے اور یہ رُوح ہے اور یہ کتاب عربی فصیح بلیغ میں ہے اور تمام صداقتیں غیر متبدل اِس میں موجود ہیں ان کو کہدے کہ اگر جن وانس اس کی نظیر بنانا چاہیں یعنی وہ
صفات کاملہ جو اس کی بیان کی گئی ہیں اگر کوئی ان کی مثل بنی آدم اور جنّات میں سے بنانا چاہیں تو یہ اُن کیلئے ممکن نہ ہوگا اگرچہ ایک دو سرے کی مدد بھی کریں۔