ساؔ تھ لڑائی کا حکم نہیں۔ ایسا ہی اندرونی طو ر پر بھی انجیل میں قوم کی باہمی حفظ حقوق کیلئے یا مجرم کو پاداش جرم کے لئے کوئی سزا اور قانون نہیں۔ اورصرف رحم اور عفو اوردرگذر کے پہلو پر اگرچہ جَین َ مت سے بہت کم مگر تاہم اِس قدرزورڈال دیا گیا ہے کہ دوسرے پہلوؤں کا گویا خیال ہی نہیں ۔ اگرچہ ایک گال پر طمانچہ کھاکر دُوسری بھی پھیر دینا ایک نادان کی نظر میں بڑی عمدہ تعلیم معلوم ہوگی مگر افسوس کہ ایسے لوگ نہیں سمجھتے کہ کیا کسی زمانہ کے لوگوں نے اِسپر عمل بھی کیا اور اگر بفرض محال عمل کیا تو کیا یہی آبادی رہی اور لوگوں کی جان ومال اور امن میں کچھ خلل نہ ہوا۔ کیا یہ تعلیم دنیا کے پَیدا کرنے والے کے اُس قانون قدرت کے مطابق ہے جس کی طرف انسانوں کی طبائع مختلفہ محتاج ہیں کیا نہیں دیکھتے کہ تمام طبائع جرائم کی سزا دینے کی طرف بالطبع جُھک گئیں اور ہر یک سلطنت نے انسداد جرائم کے لئے یہی قانون مرتب کئے جو مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے اور کسی ملک کا انتظام بجز قوانین سزا کے مجرد رحم سے چل نہ سکا۔ آخر عیسائی مذہب نے بھی اس رحم اور درگذر کی تعلیم سے بیزار ہوکر وہ خونریزیاں دکھلائیں کہ شاید اُن کی دنیا میں نظیر نہیں ہوگی اور جیسے ایک پُل ٹوٹ کر اردگردکو تہ آب کردیتا ہے ایسا ہی عیسائی قوم نے درگذر کی تعلیم کو چھوڑ کر کام دکھلائے۔ سو اِن دونوں کتابوں کا ناتمام اورناقص ہونا ظاہر ہے لیکن قرآن کریم اخلاقی تعلیم میں قانون قدرت کے قدم بہ قدم چلا ہے ۔ رحم کی جگہ جہاں تک قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے اور قہر اور سزا کی جگہ اسی اصول کے لحاظ سے قہر اور سزا اور اپنی اندرونی اور بیرونی تعلیم میں ہر یک پہلو سے کامل ہے اور اس کی تعلیمات نہایت درجہ کے اعتدال پر واقعہ ہیں جو انسانیت کے سارے درخت کی آبپاشی کرتی ہیں نہ کسی ایک شاخ کی ۔ اورتمام قویٰ کی مُرّ بی ہیں نہ کسی ایک قُوت کی ۔ اور درحقیقت اسی اعتدال اورموزونیت کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے۔3 ۱؂۔ پھر بعد اس کے مَثَانِیْ کے لفظ میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات معقولی اور