اور ؔ میری رضا مندی اِسمیں محدود ہوگئی کہ تم دین اسلام پر قائم ہوجاؤ۔ خدا نے نہایت کامل اور پسندیدہ کلام تمہاری طرف اُتارا اِس کتاب میںیہ خاصیت ہے کہ یہ کتاب متشابہ ہے یعنی اسکی تعلیمات نہ باہم اختلاف رکھتی ہیں اور نہ خداتعالیٰ کے قانون قدرت سے منافی ہیں بلکہ جو کمال انسان کے لئے اسکی فطرت اور اُس کے قویٰ کے لحاظ سے ضروری ہے اسی کمال کے مناسب حال اِس کتاب کی تعلیم ہے اور یہ صفت توریت اورانجیل کی تعلیم میں نہیں پائی جاتی۔ توریت میں حد سے زیادہ سختی اورانتقام پر زورڈالا گیا ہے اور وہ سختی مطیع اورنافرمان اوردوست اوردشمن دونوں کے حق میں ایسے طورسے تجویز کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توریت کی تعلیم کو خاص قوم اور خاص زمانہ کے لحاظ سے یہ مجبوری پیش آگئی تھی کہ سیدھے اور عام قانون قدرت کے موافق توریت کے احکام اُن قوموں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے تھے۔ اِسی لحاظ سے توریت نے اندرونی طور پر یعنی اپنی قوم کے ساتھ یہ سختی کی کہ انتقامی احکام پر زورڈال دیا اور عفواور درگذر گویا یہودیوں کے لئے حرام کی طرح ہوگئے اور دانت کے عوض اپنے بھائی کا دانت نکال ڈالنا داخل ثواب سمجھا گیااورحقوق اللہ میں بھی بہت سخت اور گویا فوق الطاقت تکلیفیں جن سے معیشت اور تمدن میں حرج ہو رکھی گئیں۔ ایسا ہی بیرونی احکام توریت کے بھی زیادہ سخت تھے جن کی رُو سے مخالفوں اور نافرمانوں کے دیہات اور شہر پُھونکے گئے اور کئی لاکھ بچے قتل کئے گئے اوربڈھوں اور اندھوں اورلنگڑوں اور ضعیف عورتوں کو بھی تہ تیغ کیا گیا۔ اورانجیل کی تعلیم میں حد سے زیادہ نرمی اور رحم اوردرگذرفرض کی طرح ٹھہرائے گئے ۔ چنانچہ بیرونی طور پر اگر دشمن دین حملہ کریں تو انجیل کی رُو سے مقابلہ کرنا حرام ہے گووہ اُن کے رُوبرو اُن کے قوم کے غریبوں اورضعیفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں اوراُنکے بچوں کو قتل کر ڈالیں اوراُن کی عورتوں کو پکڑ کرلیجائیں اورہرطرح سے بے حرمتی کریں اوراُن کے معابد کو پُھونک دیں اوراُنکی کتابوں کو جلادیں غرض کیسے ہی اُنکی قوم کو تہ وبالا کردیں مگر دشمن مذہب کے