عیساؔ ئیوں میں نہیں پائی جاتیں بلکہ حضرت عیسیٰ نے یہ بات کہہ کر کہ اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی تم میں ایمان ہو تو یہ تمام کام جو مَیں کرتا ہوں تم کرو گے بلکہ مجھ سے زیادہ کروگے اِس بات پر مہر لگادی کہ تمام عیسائی بے ایمان ہیں اور جب بے ایمان ہوئے تو اُن کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ کسی سے سچائی دین کے بارے میں بحث کریں جب تک پہلے اپنی ایمانداری ثابت نہ کرلیں کیونکہ ان کی حالت یہ گواہی دے رہی ہے کہ بوجہ نہ پائے جانے قراردادہ علامتوں کے یا تو وہ بے ایمان ہیں اور یا وہ شخص کاذب ہے جس نے ایسی علامتیں اِن کے لئے قراردیں جو انمیں پائی نہیں جاتیں اوردونوں طورکے احتمال کی رُو سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی لوگ سچائی سے بکلّی دورومہجوروبے نصیب ہیں مگر قرآن کریم نے اپنے پَیروؤں کے لئے جو علامتیں قراردی ہیں وہ صدہا مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں جس سے ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا برحق کلام ہے لیکن اگر عیسائیوں کو ایماندار مان لیا جاوے تو ساتھ ہی ماننا پڑیگا کہ انجیل موجودہ کسی ایسے شخص کا کلام ہے کہ جو جھوٹی پیشگوئیوں کے سہارے سے اپنے گروہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے مگر یاد رہے کہ اِس تقریر سے حضرت مسیح علیہ السلام پر ہمار ا کوئی حملہ نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ باتیں حضرت مسیح کی طرف سے ہیں تو انہوں نے ایمانداروں کی یہ نشانیاں لِکھ دیں۔ پھر اگر کوئی ایمانداری کو چھوڑدے تو حضرت مسیح کا کیا قصور۔ بلکہ حضرت مسیح نے اِن علامات کے لباس میں عیسائیوں کے بے ایمان ہوجانے کے زمانہ کی ایک پیشگوئی کردی ہے یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ جب اے عیسائیو تمہارے پر ایسا زمانہ آوے کہ تم میں یہ علامتیں نہ پائی جاویں تو سمجھو کہ تم بے ایمان ہو گئے اورایک رائی کے دانہ کے برابر بھی تم میں ایمان نہ رہا۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے عیسائیوں کے بعض خواص افراد میں یہ علامتیں پائی جاتی تھیں اور خوارق اُن سے ظہور میں آتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت میں جب وہ لوگ بہ باعث نہ قبول کرنے اُس آفتاب