پر ؔ محیط ہو رہا ہے اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اُن تمام کمالات کی راہ اُس کو دکھلا دینا اور وہ راہیں اُسکے لئے میسر اور آسان کردینا جن کے حصول کیلئے اُسکی فطرت میں استعداد رکھی گئی ہے اورلفظ اَقْوم سے آیت3 ۱؂ میں یہی راستی مراد ہے۔ پھر بعد اِسکے فرمایاکہ قرآن کریم تمام جھگڑوں کافیصلہ کرتا ہے۔ اور یہ قول بھی اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس میں تمام اقسام حکمت الٰہی کے موجود ہیں۔ کیونکہ جو کتاب خود ناقص اوربعض معارف سے خالی ہو وہ عام طور پر الٰہیات کے مخطیوں اور مصیبوں کیلئے قاضی اور حَکم نہیں ٹھہر سکتی بلکہ اُسی وقت حَکم ٹھہرے گی کہ جب جامع جمیع علوم حکمیہ ہوگی۔ اور پھر فرمایا کہ یہ قرآن تمام شکوک سے پاک ہے اور اسکی تعلیمات میں شک اور شبہ کو راہ نہیں یعنی علوم یقینیہ سے پُر ہے۔ اور پھر فرمایا کہ یہ قرآن وہ حکمت ہے جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور تمام الٰہی کتابوں پر حاوی ہے اور تمام معارف دینیہ کا اُسمیں بیان موجود ہے وہ ہدایت کرتا ہے اور ہدایت پر دلائل لاتا ہے اور پھر حق کو باطل سے جُدا کرکے دکھلادیتا ہے اور وہ پرہیزگاروں کو اُنکی نیک استعدادیں جو اُن میں موجود ہیں یاد دلادیتا ہے اوراُسکی تعلیم یقین کے مرتبہ پر ہے اور وہ غیب گوئی میں بخیل نہیں ہے یعنی اُس میں امور غیبیہ بہت بَھرے ہوئے ہیں اور پھر صرف اتنا نہیں کہ اپنے اندر ہی امور غیبیہ رکھتا ہے بلکہ اس کا سچاپَیرو بھی منجانب اللہ الہام پا کر امور غیبیہ کو پاسکتا ہے اوریہ فیض اسی پاک کتاب کا جو بخیل نہیں ہے۔ اور دُوسری کتابیں اگرچہ منجانب اللہ بھی ہوں مگر اب وہ بخیل کا ہی حکم رکھتی ہیں جیسے انجیل اور توریت کہ اب ان کی پَیروی کرنے والا کوئی نور حاصل نہیں کرسکتا بلکہ انجیل تو عیسائیوں سے ایک ٹھٹھا کر رہی ہے کیونکہ جو عیسائی ایمانداروں کی علامتیں انجیل نے ٹھہرائی ہیں کہ وہ ناقابل علاج بیماروں یعنی مادرزاد اندھوں اورمجذوموں اورلنگڑوں اور بہروں کو اچھا کریں گے اور پہاڑوں کو حرکت دے دینگے اورزہر کھانے سے نہیں مرینگے یہ علامتیں