بلکہؔ اسکی تمام تعلیمات کتاب مکنون یعنی صحیفہ فطرت میں لکھی ہوئی ہیں اور اسکے دقائق کو وہی لو گ معلوم کرتے ہیں جو
پاک کئے گئے ہیں (اِس جگہ اللہ جلّ شانہٗ نے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اِس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی
طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علو شان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ اُن کو دیکھتے ہیں اور اِس آیت میں
اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم کے دقائق عالیہ کیطرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے اور یہ اعتراض نہیں ہو سکتا
کہ اگرعلم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیونکر مواخذہ ہو گا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کافر بھی
سمجھ سکتا ہے اورایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا۔ مگر حقائق معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان
کے موجب ہیں اِس لئے صرف خواص کو اُس کوچہ میں راہ دیا کیونکہ وہ دراصل مواہب اوررُوحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں۔) پھر بعد اس کے فرمایا کہ کلمات
قرآن کے اس درخت کی مانند ہیں جس کی جڑھ ثابت ہو اور شاخیں اُس کی آسمان میں ہوں۔ اور وہ ہمیشہ اپنے وقت پر اپنا پھل دیتا ہے یعنی انسان کی سلیم فطرت اُس کو قبول کرتی ہے اورآسمان میں
شاخوں کے ہونے سے یہ مراد ہے کہ بڑے بڑے معارف پر مشتمل ہے جو قانون قدر ت کے موافق ہیں اور ہمیشہ پھل دینے سے یہ مراد ہے کہ دائمی طور پر روحانی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور
پھر فرمایا کہ یہ قرآن اُس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا کجی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور درحقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک
کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کی تمام قویٰ