بغیرؔ کسی حیلہ وحجت کے میرے اِن قصائداور تفسیر کے مقابل پر عرصہ ایک ماہ تک اپنے قصائد اورتفسیر شائع نہ کی تو پھر ہمیشہ کے لئے اس قوم سے اعراض کرونگا۔ اور اگراِس رسالہ کے مقابل پر میاں بطالوی یا کسی اور اُنکے ہم مشرب نے سیدھی نیت سے اپنی طرف سے قصائد اور تفسیر سورہ فاتحہ تالیف کرکے بصورت رسالہ شائع کردی تو مَیں سچے دل سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ثالثوں کی شہادت سے یہ ثابت ہو جاوے کہ اِن کے قصائد اور انکی تفسیر جو سورہ فاتحہ کے دقائق اور حقائق کے متعلق ہو گی میرے قصائد اور میری تفسیر سے جو اسی سورہ مبارکہ کے اسرارلطیفہ کے بارہ میں ہے ہر پہلو سے بڑھ کر ہے تو میں ہزار روپیہ نقد اُن میں سے ایسے شخص کو دُوں گا جو روزِ اشاعت سے ایک ماہ کے اندر ایسے قصائد اورایسی تفسیر بصورت رسالہ شائع کرے اور نیز یہ بھی اقرارکرتاہوں کہ بعدبالمقابل قصائد اورتفسیرشائع کرنے کے اگراِن کے قصائد اوراِن کی تفسیرنحوی وصَرفی اورعلم بلاغت کی غلطیوں سے مُبرّا نکلے اور میرے قصائد اور تفسیرسے بڑھ کر نکلے تو پھرباوصف اپنے اِس کمال کے اگرمیرے قصائد اور تفسیربالمقابل کے کوئی غلطی نکالیں گے تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام بھی دوں گا۔ مگر یادرہے کہ نکتہ چینی آسان ہے ایک جاہل بھی کر سکتا ہے مگر نکتہ نمائی مشکل۔ تفسیرلکھنے کے وقت یہ یادرہے کہ کسی دوسرے شخص کی تفسیر کی نقل منظور نہیں ہوگی بلکہ وہی تفسیر لائق منظوری ہوگی جِس میں حقائق ومعارف جدیدہ ہوں بشرطیکہ کتاب اللہ اورفرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالف نہ ہوں۔ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم کی تعریف میں صاف فرماتا ہے کہ اس میں ہر یک چیز کی تفصیل ہے پھر معارف اور حقائق کا کوئی حصہ کیونکر اُس سے باہر رہ سکتاہے۔ ماسوااِس کے خداتعالیٰ کا قانون قدرت بھی یہی شہادت دے رہا ہے کہ جو کچھ اُس سے صادر ہوا ہے خواہ ایک مکھی ہو وہ بے انتہا عجائبات اپنے اندر رکھتا ہے پھر کیا ایک ایماندار یہ رائے ظاہر کر سکتا ہے کہ ایک مکھی یا مچھر کی بناوٹ تو ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ اگر قیامت تک تمام فلاسفر اُسکے خواص عجیبہ کے دریافت