کرؔ نے کے بارہ میں سوچتے چلے جائیں تب بھی ان کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا کہ جس قدر اُن میں خواص تھے انہوں نے معلوم کر لیے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی عبارتیں صرف سطحی خیالات تک محدود ہیں جو ایک جاہل مُلّا اُنپر سرسری نظر ڈال کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ جوکچھ قرآن میں تھا مَیں نے معلوم کر لیا ۔ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہر گز بدل نہیں سکتا اوراسکی مخلوقات میں سے ایک پتّہ بھی ایسا نہیں جسکوچند معلومہ خواص میں محدود کہہ سکیں بلکہ اسکی ہر یک مخلوق خواص غیر محدودہ اپنے اندر رکھتی ہے اور اسی وجہ سے ہریک مخلوق میں صفت بے نظیری پائی جاتی ہے اوراگر تمام دنیا اُسکی نظیر بنانا چاہے تو ہرگز اُن کے لیے میسرنہ ہوجیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ فرما دیا ہے کہ مکھی بنانے پر بھی کوئی قادر نہیں ہوسکتا۔ کیوں قادر نہیں ہو سکتا اِسکی یہی تو وجہ ہے کہ مکھی میں بھی اِس قدر عجائبات صنعت صانع ہیں کہ انسانی طاقتوں بلکہ تمام مخلوق کی قوتوں سے بڑھ کر ہیں پھر خدا تعالیٰ کا کلام کیوں ایسا گرا ہوا اورادنیٰ درجہ کا سمجھا جاوے کہ جو اپنے خواص اور حقائق کے رُو سے مکھی کے درجہ پر نہیں ۔ کیا یہ وہی کلام نہیں جسکے حق میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے333 3 3 3 3 3 3 33 3333333 ۱؂ یعنی اگر جن واِنس اس بات پر اتفاق کرلیں کہ اِس قرآن کی نظیر بنا ویں تو ہرگز بنا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں ۔ بعض نادان مُلّا اخزاھم اللّٰہ کہاکرتے ہیں کہ یہ بے نظیری صرف بلاغت کے متعلق ہے لیکن ایسے لوگ سخت جاہل اور دِلوں کے اندھے ہیں اِس میں کیا کلام ہے کہ قرآن کریم اپنی بلاغت اورفصاحت کے رُو سے بھی بے نظیر ہے۔ لیکن قرآن کریم کا یہ منشاء نہیں ہے کہ اُس کی بے نظیری صِرف اسی وجہ سے ہے بلکہ اُس پاک کلام کا یہ منشاء ہے کہ جن جن صفات سے وہ متصف کیا گیا ہے اُن تمام بنی اسرائیل: