علیہ وسلم خیلَہم ورَجِلَہم، وضربوا خیامہم فی میادین بدرٍ بفوج کثیر قریبًا من المدینۃ، وأرادوا استیصال الدین۔ فاشتعل غضب اللّٰہ علیہم ورأی قبح جفاۂم وشدۃ اعتداۂم، فنزل الوحی علی رسولہ وقال 33۔3333 ۱؂، فأمر اللّٰہ رسولَہ المظلوم فی ہذہ الآیۃ لیحارب الذین ہم بدأوا أول مرۃ بعد أن رأی شدۃ اعتداۂم وکمال حقدہم وضلالہم، ورأی أنہم قوم لا یرجی بالمواعظ صلاح أحوالہم۔ فانظر کیف کان حرب رسوؔ ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ وما حارب نبی اللّٰہ أعداءََ الدین إلا بعد ما رآہم سابقین فی الترامی بالسہام والتجالد بالحُسام، وما کان الکفار مقتولین فقط بل کان یسقط من الجانبین قتلی، وکان الکفار ظالمین ضآلین۔* معہ اپنے سواروں اور پیادوں کے چڑھائی کی اور بدر کے میدان میں جو مدینہ سے قریب ہے اپنی فوج کے خیمے کھڑے کر دیئے اور چاہا کہ دین کی بیخ کنی کر دیں تب خدا کا غضب ان پر بھڑکا اور اس نے ان کے بڑے ظلم اور سختی کے ساتھ حد سے تجاوز کرنا مشاہدہ کیا سو اس نے اپنی وحی اپنے رسول پر اتاری اور کہا کہ مسلمانوں کو خدا نے دیکھا جو ناحق ان کے قتل کے لئے ارادہ کیا گیا ہے اور وہ مظلوم ہیں اس لئے انہیں مقابلہ کی اجازت ہے اور خدا قادر ہے جو ان کی مدد کرے سو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول مظلوم کو اس آیت میں ان لوگوں کے مقابل پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جن کی طرف سے ابتدا تھی مگر اس وقت اجازت دی جبکہ انتہا درجہ کی زیادتی اور گمراہی ان کی طرف سے دیکھ لی اور یہ دیکھ لیا کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ بمجرد نصیحتوں سے ان کی اصلاح غیر ممکن ہے پس اب سوچو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں کی کیا حقیقت تھی اور نبی اللہ دشمنان دین سے ہرگز نہیں لڑا مگر جب تک کہ اس نے یہ نہ دیکھ لیا کہ وہ تیر چلانے اور تلوار مارنے میں پیش دست اور سبقت کرنے والے ہیں اور نیز یہ تو نہیں تھا کہ صرف کفار ہی مارے جاتے تھے بلکہ جانبین سے مرنے والے کام آتے تھے اور کفار ظالم اور حملہ آور تھے۔