قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خداتعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قوی اثر رکھے کہ انکی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاً سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرّہ بھی اثر نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظامِ الٰہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرعی نہ ہو؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ! بلکہ خود سیّد صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلیٰ تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القویٰ دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام حکم لگادے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں۔ افسوس ! صد افسوس کہ سیّد صاحب باوجودیکہ پیرانہ سالی تک پہنچ گئے مگر اب تک اُن پر یہ سلسلۂ نظام قدرت مخفی رہا کہ کیونکر قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا گیا ہے اور کس قدر یہ سلسلہ اسبابؔ اور مسببات کا باہم گہرے اور لازمی تعلقات رکھتاہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس دھوکے میں پھنس گئے کہ انہوں نے خیال کرلیا کہ گویا بغیر ان اسباب کے جو قدرت نے روحانی اور جسمانی طور پر مقرر کر رکھے ہیں کوئی چیز ظہور پذیرہو سکتی ہے۔ یوں تو دنیا میں کوئی چیز بھی مقدّر سے خالی نہیں مثلاً جو انسان آگ اور پانی اور ہوا اور مٹی اور اناج اور نباتات اور حیوانات اور جمادات وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ سب مقدّرات ہی ہیں لیکن اگر کوئی نادان ایسا خیال کرے کہ بغیر ان تمام اسباب کے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں اور بغیر ان راہوں کے جو قدرت نے معیّن کر دی ہیں ایک چیز بغیر توسط جسمانی یا روحانی