فطرت کا خاصہ ہے سو انسان اپنے فطرتی خاصہ سے دعا کرتا ہے بلا خیال اس کے کہ وہ ہوگا یا نہیں اور بمقتضائے اس کی فطرت کے اس کو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو جو مانگو۔ اس تمام تحریر سے جس کو ہم نے بطور خلاصہ اوپر لکھ دیا ہے ثابت ہوا کہ سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصولِ مقصود نہیں ہو سکتی اور نہ تحصیل مقاصد کے لئے اس کا کچھ اثر ہے اور اگر دعا کرنے سے کسی داعی کا فقط یہی مقصد ہو کہ بذریعہ دعا کوئی سوال پورا ہوجائے تو یہ خیال عبث ہے کیونکہ جس امر کا ہونا مقدّر ہے اسکے لئے دعا کی حاجت نہیں اور جس کا ہونا مقدّر نہیں ہے اسکے لئے تضرع و ابتہال بے فائدہ ہے۔ غرض اس تقریر سے بتمام تر صفائی کھل گیا کہ سیّد صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کیلئے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے۔ اب واضح ہو کہ سیّد صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکا لگا ہوا ہے مگر ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس دھوکے کی کیفیت کو اس مضمون کے اخیر میں بیان کریں گے اس وقت ہم نہایت افسوس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر سیّد صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانونِ قدرت بھی جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں اور جس کو وہ خدا تعالیٰ کی فعلی ہدایت اور قرآن کریم کے اسرار غامضہ کا مفسر قرار دیتے ہیں اس مضمون کے لکھنے کے وقت ان کی نظر سے غائب تھا؟ کیا سیّد صاحب کو معلوم نہیں کہ اگرچہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدّر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اسکے حصول کیلئے ایسے اسباب مقررؔ کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور سچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگرچہ مقدّر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دُعا یا ترکِ دُعا مگر کیا سیّد صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا۔ پھر اگر سیّد صاحب باوجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے یکساں اور متشابہ