وسائل کے حاصل ہو سکتی ہے تو ایسا شخص گویا خدا تعالیٰ کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ میں نہیں دیکھتا کہ سیّد صاحب کی تقریر کا بجز اس کے کچھ اور بھی ماحصل ہے کہ وہ دعا کو منجملہ ان اسباب مؤثرہ کے نہیں سمجھتے جن کو انہوں نے بڑی مضبوطی سے تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اس راہ میں حد سے زیادہ آگے قدم رکھ دیا ہے مثلاً اگر سیّد صاحب کے پاس آگ کی تاثیر کا ذکر کیا جائے تو وہ ہرگز اس سے منکر نہیں ہوں گے اور ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اگر کسی کا جلنا مقدّر ہے تو بغیر آگ کے بھی جل رہے گا تو پھر میں حیران ہوں کہ وہ باوجود مسلمان ہونے کے دعا کی تاثیروں سے جو آگ کی طرح کبھی اندھیرے کو روشن کر دیتی ہیں اور کبھی گستاخ دست انداز کا ہاتھ جلا دیتی ہیں کیوں منکر ہیں کیا ان کو دعاؤں کے وقت تقدیر یاد آجاتی ہے اور جب آگ وغیرہ کا ذکر کریں تو پھر تقدیر بھول جاتی ہے؟ کیا ان دونوں چیزوں پر ایک ہی تقدیر حاوی نہیں ہے؟ پھر جس حالت میں باوجود تقدیر ماننے کے وہ اسباب مؤثّرہ کو اس شدت سے مانتے ہیں کہ اسکے غلوّ میں وہ بدنام بھی ہوگئے تو پھر اس کا کیا موجب ہے کہ وہ نظام قدرت جس کو وہ تسلیمؔ کر چکے ہیں دعا میں ان کو یاد نہیں رہا یہاں تک کہ مکھی میں تو کچھ تاثیر ہے مگر دعا میں اتنی بھی نہیں۔ پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کوچہ سے بے خبر ہیں اور نہ ذاتی تجربہ اور نہ تجربہ والوں کی ان کو صحبت ہے۔
اب ہم فائدہ عام کے لئے کچھ استجابت دعا کی حقیقت ظاہر کرتے ہیں سو واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں پس یہی سبب سیّد کی غلط فہمی کا ہے۔ اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق مجاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے