بعض آیتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ جن چیزوں کا دیا جانا مقدّر نہیں وہ ہرگز دی نہیں جاتیں اور بعض آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور سب کی سب قبول کی جاتی ہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ کرلیا ہے جیسا کہ آیت ۱ سے ظاہر ہے پھر اس تناقض اور تعارض آیات سے بجز اس کے کیونکرَ مخلصی حاصل ہو کہ استجابت دعا سے عبادت کا قبول کرنا مراد لیا جائے یعنی یہ معنے کئے جائیں کہ دعا ایک عبادت ہے اور جب وہ دل سے اور خشوع اور خضوع سے کی جائے تو اُس کے قبول کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے پس استجابت دعا کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اس پر ثواب مترتب ہوتا ہے ہاں اگر مقدّر میں ایک چیز کا ملنا ہے اور اتفاقاً اس کے لئے دعا بھی کی گئی تو وہ چیز مل جاتی ہے مگر نہ دعا سے بلکہ اس کاملنا مقدّر تھا اور دعا میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب دعا کرنے کے وقت خدا کی عظمت اور بے انتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ خیال حرکت میں آکر ان تمام خیالات پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے غالب ہو جاتا ہے اور انسان کو صبر اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہو جانا لازمہ عبادت ہے اور یہی دعا کا مستجاب ہونا ہے پھر سیّد صاحب اپنے رسالہ کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ حقیقت دعا سے ناواقف اور جو حکمت اس میں ہے اس سے بے خبر ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ امر مسلم ہے کہ جو مقدّر نہیں ہے وہ نہیں ہونے کا تو دعا سے کیا فائدہ ہے یعنی جب کہ مقدّر بہرؔ حال مل رہے گا خواہ دعا کرو یا نہ کرو اور جس کا ملنا مقدّر نہیں اس کے لئے ہزاروں دعائیں کئے جاؤ کچھ فائدہ نہیں تو پھر دعا کرنا ایک امر عبث ہے اس کے جواب میں سیّد صاحب فرماتے ہیں کہ اضطرار کے وقت اِستمداد کی خواہش رکھنا انسان کی