بسمؔ اللہ الرحمن الرحیم
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیّد احمد خان صاحب کے۔ سی۔ ایس ۔آئی ۔کے رسالہ
الدعا والاستجابۃ اور رسالہ تحریر فی اصول التفسیر پر ایک نظر
اے اسیرِ عقل خود برہستی خود کم بناز
کین سپہر بوالعجائب چون تو بسیار آورد
غیر را ہرگز نمی باشد گزر در کوئ حق
ہر کہ آید ز آسمان او رازِ آن یار آورد
خودبخود فہیمدنِ قرآن گمانِ باطل است
ہر کہ از خود آورد او نجس و ُ مردار آورد
سیّد صاحب اپنے رسالہ مندرجہ عنوان میں دعا کی نسبت اپنا یہ عقیدہ ظاہر کرتے ہیں کہ استجابت دعا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے کیونکہ اگر استجابت دعا کے یہی معنے ہوں کہ وہ سوال بہرحال پورا کر دیا جائے تو دو مشکلیں پیش آتی ہیں اوّل یہ کہ ہزاروں دعائیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہیں مگر سوال پورا نہیں ہوتا جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ خدا نے استجابت دعا کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں وہ مقدّر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدّر ہیں۔ اُن مقدّرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا پس اگر استجابت دعا کے معنے سوال کا پورا کرنا قرار دئیے جائیں تو خدا کا یہ وعدہ کہ ۱ ان سوالوں پر جن کا ہونا مقدّر نہیں ہے صادق نہیں آ سکتا یعنی ان معنوں کی رو سے یہ عام وعدہ استجاؔ بت دعا کا باطل ٹھہرے گا کیونکہ سوالوں کا وہی حصہ پورا کیا جاتا ہے جس کا پورا کیا جانا مقدّر ہے۔ لیکن استجابت دعا کا وعدہ عام ہے جس میں کوئی بھی استثناء نہیں پھر جس حالت میں