معلوم ہو کہ سمندر سے ہی آفتاب نکلا اور سمندر میں ہی غروب ہوتا ہے۔ قرآن نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ علم ہیئت کے موافق بیان کیاجاتاہے ہر روز صدہا استعارہ بولے جاتے ہیں مثلًا اگر آپ یہ کہیں کہ آج مَیں ایک رکابی پلاؤ کی کھا کر آیا ہوں تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آپ رکابی کو کھا گئے اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص شیر ہے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ا س کے پنجے شیر کی طرح اور ایک دُم بھی ضرور ہو گی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ زمین کے کنارہ سے سلیمان کی حکمت سُننے آئے حالانکہ زمین گول ہے کنارہ کے کیا معنے۔ پھر یسعیاہ باب۷۱۴ میں یہ آیت ہے ساری زمین آرام سے اور ساکن ہے مگر زمین کی تو جنبش ثابت ہو چکی۔ ع ۔ جہاں چھ ماہ تک سُورج نہیں چڑھتا روزہ کیوں کر رکھیں۔ غ۔ اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر اُن کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قویٰ کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دِکھلانا چاہیئے پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیئے اور اگر اُن کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچّہ پیٹ میں رہنا چاہیئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دِن کا یہی مقدار ہے اوراس کے مطابق اُن کے قویٰ بھی ہیں۔ ع۔ رحم عدل کے بعد ہوتا ہے اور گوڈنس یعنی احسان پہلے۔ غ۔ احسان کوئی صفت نہیں بلکہ رحم کی صفت کا نتیجہ ہے مثلًا یہ کہیں گے کہ فلاں شخص پر مجھ کو رحم آیا۔ یہ نہیں کہیں گے کہ فلا ں شخص پر مجھ کو احسان آیا۔ رحم بیماروں پر آتا ہے۔ رحم کمزوروں پر آتا ہے ۔ رحم بچّوں پرآتا ہے ۔ اور اگر کسی بدمعاش قابل سزا پر بھی آوے تو ایسی حالت میں آتا ہے کہ جب وہ ضعیفوں اور نا توانوں کی طرح رجوع کرے۔ پھر اصل مورد رحم ضعف اورناتوانی ہوئی یا کچھ اورہوا۔