پرکفر باقی نہ رہے ۔
غ۔ اگر درحقیقت کُل دینوں سے قرآن نے یہی معاملہ کیا ہے کہ یا ایمان اور یا قتل تو آپ ایسے معنوں کے کرنے میں سچے ہیں ورنہ جو حال ہے سمجھ لیجئے۔
ع۔ اگر ایمان بالجبر نہ تھا تو عربوں کے لئے یہ کیوں شرط لگائی گئی کہ یا ایمان یا قتل۔
غ۔ قتل کا حکم عربوں کی نسبت اُن کی خونریزیوں کی وجہ سے تھا جو اسلامی لڑائیوں سے پہلے اُنہوں نے اسلام کے غریب اور گوشہ گزین جماعت کو قتل کرناشروع کیا اور ایمان پر رہائی دینااُن کے لئے ایک رعایت تھی جو صفات الٰہیہ کے مخالف نہیں۔ دیکھو کتنی دفعہؔ توبہ کے وقت یہودیوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے قہر سے نجات دی اور نیز شفاعت سے بھی۔
ع۔ موسٰی ؑ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب دکھلانہ سکے۔ ۔
غ۔ امان بشرط جزیہ تو آپ دیکھ چکے۔ دیکھو قاضیون کی کتاب باب ۲۸ تا ۳۵ پھر صلح کا پیغام بھی سُن چکے اگر قہر تھا تو پھر صلح کیسی دیکھو استثناء ۲۰ صلح کرنے والا ایمان سے قریب ہوجاتا ہے اورپھر ایمان لانے سے کون روکتا ہے ۔
ع۔ معصوم بچّوں کو قتل کرنا وباؤں کی موت کی طرح ہے۔
غ۔ ننھے ننھے شیر خوار بچوں کو اُنکی ماؤں کے سامنے تلواروں اوربرچھیوں سے قتل کرنا ایک نہ دو بلکہ لاکھ ہا بچوں کو اگریہ خدائے تعالیٰ کے حکم سے ہے تو پھر قرآنی جہاد کیوں جائے اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ کیا خُداتعالیٰ کی یہ صفات ہیں اور وہ نہیں۔
ع۔موسٰیؑ کوحکم تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کردیوے۔
غ۔ کہاں وہ قومیں عدم کی گئیں صلح کی گئی جزیہ پر چھوڑے گئے۔ عورتیں باقی رکھی گئیں۔
ع۔ اسلام لانے کے لئے جبر کیا گیاہے۔
غ۔ جس نے ۱ فرمایا۔ صلح کو قبول کیا جزیہ دینے پر امان دے دی۔ اس کوکون جائز کہہ سکتا ہے۔