جزیہ گذاری اور ذلّت، قرآن نے قرار دی ہے وہ بے شک قتل عام سے تو مستثنیٰ کئے گئے ہیں لیکن آپ نہیں کہہ سکتے کہ جزیہ گذاری اور ذلت خواری سے گذارنا کوئی چٹکی نہیں اور وہ بے ایذا مطلق ہے۔ خواہ نخواہ کُچھ تو ایذا اس میں ہے۔ آگے ہم تواریخ کا حوالہ آپ کوکچھ نہ دیں گے کہ کیا کچھ گذرا ہے۔ ہم نے صرف قرآن کو لیا ہے اسی کے اُوپر اعتراض کرتے ہیں اورنہیں کرتے ہیں ۳۔ جناب گوڈنس کو شعبہ مرسی یعنے رحم کا قرار دیتے ہیں لیکن مجھ کو معاف رکھئے کہ یہ ایک ایسی غلطی ہے کہ عام غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے گوڈنس وہ ہے جو حق سے زیادہ احسان دکھلاتی ہے اور رحم وہ ہے جو مواخذہ عدل سے چھوڑاتا ہے۔ لیکن جناب کو خواہ نخواہ مدِّنظر یہ ہے کہ کہیں تعلیم کفارہ کی ثابت نہ ہوجائے اِس لئے آپ ان باتوں کے سمجھنے کو پسندنہیں فرماتے۔ یہ ایک عجیب امر آپ فرماتے ہیں کہ رحم کو تقدیم ہے عدل کے اُوپر۔ اورعجب اِس میں یہ ہے کہ رحم مواخذہ پر آتا ہے یعنی مواخذۂ عدل پر تو اُس کو تقدیم کیونکر ہوئی۔ درست کہنا تو یہ ہے کہ ہر صفت اپنے اپنے موقع پر ظہور کرتی ہے اور وہ جو چند باتیں جناب رحم کے متعلق سمجھتے ہیں درحقیقت گوڈنس کے متعلق ہیں رحم سے ان کا علاقہ کچھ نہیں۔ تھوڑی سی شرح کے واسطے گوڈنس کی تعریف ہم اور بھی کر دیتے ہیں۔ مثال۔ اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو اچھی طرح سے نہلاتا۔ کھلاتا۔ پلاتاہے۔ اِس سے زیادہ کہ اگر اُس کو چھوڑ دیا جائے تو کبھی میسّر نہ ہو تویہ گوڈنس ہے ۔اور اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو جو اُس کی حفاظت میں ہیں ایذا دیوے اور اِس ایذا میں وہ خوش ہو۔ یہ وہ امر ہے کہ گوڈنس کے برخلاف ہے ہر ایک مخلوق جوعدم سے بوجود آتا ہے۔ اس کے کُچھ حقوق اپنے خالق پر ہیں۔ چنانچہ ایک یہ کہ وہ اُن کو ہر حاجت میں دکھ دینے والے سے بَری ؔ رکھے یہاں تک عدل ہے مگرجو اِس سے بڑھ کر اُن کو سُکھ کی افزونی دیوے یہ گوڈنس