بیچ میں آکر نہ رہے ہمارے جنگ سے محفوظ نہیں۔ یہاں سے ثابت ہے کہ مامنہ وہی جگہ ہے کہ جہاں اُن پر غیر لوگ تکلیف نہ پہنچا سکیں اور اُن کو دین سے پھر جانے کا پھر موقع نہ ملے۔ ہم نے بہت قسم کے جہاد جناب کے تسلیم کر لئے ہیں ہمار ااعتراض جہاد ایمان بالجبری پر ہے جو اس سے سوا آپ نے فرمایاوہ سوا ہی ہے۔ ہماری آیات سند کاآپ نے اچھی طرح سے جواب نہیں دیا۔اوروہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ موسیٰ نے اچھی اچھی عورتیں جولُوٹ سے بچالی گئیں خود رکھ لیں۔ توریت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جو اُس نے ایک شادی رغوائیل یا تیروکی لڑکی سے شادی کی تھی اُس کے سوا اور کوئی شادی نہیں کی اور نہ لونڈی رکھی ۔ البتہ اُس نے بعض عورات کو جو لُوٹ میں بنی اسرائیل لائے۔ رکھ چھوڑنے کی اجازت دی لیکن اُن کا پیچھے رونے والا بھی کوئی نہ تھا کیونکہ سب کا قتل عام کا حکم تھا ۔ اورایسا ہی ہر وبا میں ہوتا ہے کہ بمشیت الٰہی بعضے بچ بھی جاتے ہیں۔ لیکن قرآن میں جو لُوٹ کی عورتیں اور خرید کی عورتیں جائز رکھی گئی ہیں اُن کو آپ کس طرح سے چُھپا سکتے ہیں کہ جن کے پیچھے رونے والے بھی موجود تھے۔ دیکھو سورۂ احزاب میں جس میں یہ لکھاہے۔ ۱؂ ۔ اس میں ملک ہونا بذریعہ خرید کے ہے اور فَئْ بذریعہ لُوٹ کے ہے۔ اورجو سر سید احمد خان صاحب نے اِس آیت کی تفسیر کی ہے اُس کا موقع ابھی نہیں مگر پیچھے سے اُن کی غلطی ہم دکھا دینگے۔ موسیٰؔ کی لڑائیوں میں ہم نے فرق دکھلایا کہ وہ بحکم الٰہی تھیں وبا نشان۔ اور قرآن کی لڑایاں ظاہر ہے کہ پالیسی کی تھیں جس کے واسطے کبھی تصدیق کسی معجزہ کی نہیں ہوئی اور تعظیمات اس کے برخلاف صفات ربّانی کے ہیں لہٰذا ہم اس کو الہامی نہیں کہہ سکتے۔ ۲۔ یہ تو سچ ہے کہ برتن سونے چاندی کے بنی اسرائیل نے مصریوں سے مستعارلئے تھے لیکن وہ سوناچاندی جس حقیقی مالک کی ملک ہیں یعنی خدا کی۔ اُسی خدا نے اُن کو اجازت دی کہ اپنے پاس رہنے دو۔ پھر اس میں ظلم کون سا ہے ۔ اہل کتاب کے واسطے