(۳) روزہ کے رکھنے کی حدود زمانہ قرآن میں یہ بیان ہوئی ہیں کہ دن کی سفید دھاری کے نکلنے سے پہلے شروع کیاجائے اور شام کی سیاہی کی دھاری کے آنے تک اُس کو رکھا جائے اِ س میں سوال یہ ہے کہ اگرقرآن کل انسانوں کے واسطے ہے تو گرین لینڈ اور رآئس لینڈکا حال کیا ہو گا؟ جہاں چھ مہینے تک سُورج طلوع نہیں کرتا۔ اگر کہو کہ وہاں وقت کا اندازہ کر لینا چاہیئے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن وقت کا اندازہ خود کرتا ہے اور کسی دوسرے کو اِس کا اندازہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ چند برائے نمونہ وہ تعلیمات قرآنی ہیں جو بالبداہت صداقت کے برخلاف ہیں ۔
(۴)ماسواء اسکے ظاہر ہے کہ چھوٹا بڑے کی قسم کھا سکتا ہے اور معنی قسم کے یہ ہیں کہ اگر اِس کا بیان جھوٹا ہو تو اِ س بڑے کی مار اس پر پڑے۔ لیکن جبکہ قرآن میں اُونچی چھت اُبلتے پانی اورزیتون اور قلم وغیرہ کی قسمیں لکھی ہیں تو یہ چیزیں خُدا کو کیانقصان پہنچا سکتی ہیں اور ایسی قسمیں صرف ہنسی کی سی معلوم نہیں ہوتیں تو اور کیا ہیں۔
جواب امروزہ
۱۔ جناب فرماتے ہیں کہ ایمان بالجبرکی تعلیم قرآن میں نہیں ہے۔ اِس پر اور کچھ کہنا ضرور نہیں منصف ہر دو کے بیانوں کو دیکھ لیں گے ۔ خود ہی انصاف کر لیں گے۔ قہر الٰہی کے حکم کی تعمیلؔ اور بات ہے اور پالیسی کی تجویز کی تعبیر اور بات ہے مُوسیٰ کو حکم الٰہی تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کر دو جیسے کہ طوفان کا حکم ہو یا خاص وبا کا حکم ہوکہ جس میں گناہ گارتو مارے جاتے ہیں اور بے گناہوں کا امتحان ختم ہو جاتا ہے اُن کو گناہ گار نہیں بنایا جاتا مگر جناب کے حکم پالیسی کے ہیں جس میں لکھا ہے کہ بچے اور عورتیں وغیرہ محفوظ رکھے جاویں اور جو شخص اسلام پر آجائے اُس کو امان دیاجاوے۔ پس یہی تو امان منحصر بر ایمان ہے جس پر اعتراض قائم ہوتا ہے اور خُدا کے وباؤں کے اُوپر خواہ کسی اسباب سے ہوں کوئی اعتراض قائم نہیں ہوتا۔
مامنہ کے معنے یہ نہیں کہ اُسی شخص کا وطن او رگھر امن کا ٹھہرایا جاوے بلکہ سُورہ انفال میں ایک آیت ہے جس کا حوالہ میں ابھی ڈھونڈ کے دوں گا کہ جو گھر چھوڑ کے ہمارے