بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب بقایا بیان سابقہ امروزہ:۔ ۱۴۔ موسیٰ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب نہ دکھلاسکیں گے۔ اور وباؤں میں جیساکہ طوفان نوحؑ تھا یا اور مریان میں جناب نہیں کہہ سکتے کہ بحکم خدانہیں یا معصُوم ان میں مارے جانے سے نامعصوم ٹھہر جاتے ہیں۔پس یا تو انکار فرمائیے کہ توریت کلام اللہ نہیں یا اعتراضوں کو بند کیجئے۔ ہمارے اعتراض قرآن کے اُوپر صفات ربّانی کے مخالف ہونے کے باعث ہیں اور اس سے ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کلام اللہ نہیں ہو سکتا اورنبی اسلام صلعم رسول اللہ نہیں ہو سکتے اوران اعتراضوں کے برخلاف ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ کلام الہامی ہے اوریہ رسول حقیقی ۔ پس یہ ویسے اعتراض نہیں کہ جیسے آپ توریت پر کرتے ہیں کہ جس کو آپ بروئے قرآن کلام اللہ بھی جانتے ہیں اورموسیٰ کو رسول اللہ بھی اورپھر معترض ہوتے ہیں۔ جیسے ہم نے صفات الٰہی کے مخالف تعلیمات قرآنی کو تھوڑا ساظاہر کیاؔ ہے۔ ہم چند تعلیمات قرآنی اور بھی بیان کرتے ہیں۔ مثلًا ایک یہ کہ قرآن بجائے حق پرستی کے ناحق کے خوف کی پرستش جائز کرتاہے جیسے کہ سورۂ نحل میں لکھا ہے کہ جو شخص ایمان اللہ کے بعد تکفیر بر نام اللہ کے کرے بشر طیکہ وہ مجبور نہ ہو اور اپنے دِل میں مطمئن ہو ایسے پر اللہ کا غضب ہے یعنی حالت مجبوری میں اوراطمینان دِلی میں بابت حق ہونے اللہ کے انکار اللہ سے قابل غضب الٰہی کے نہیں اور یہ صاف ناحق کی خوف پرستی ہے بجائے حق پرستی کے جو حق کہ قادر مطلق ہے اور پھر سورۂ کہف میں لکھا ہے کہ ذو القرنین جب عرب میں پہنچا تو اُس نے پایا کہ غروب ہونا سُورج کا دلدل کی ندی میں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہاں پانا ذوالقرنین کا لکھا ہے لیکن کلام قرآنی کی تصدیق کے سوا نہیں یعنی تصدیق قرآنی اس کے ساتھ اور یہ امر واقعی نہیں پھر اس کو حق کے ساتھ کیونکر موافق کیاجائے۔