بیان کر چکا ہوں وعد اور وعید سے وابستہ ہیں یعنی اگر نیکی کرے تو اُس کو ضرور نیک جزا ملے گی۔ اور اگر بدی کرے تو اُس کو بدثمرہ ملے گا۔ اور ساتھ اِس کے یہ بھی وعدہ ہے کہ ایمان اور توبہ پر نجات ملے گی تو پھر اس صورت میں کفارہ کا کیا تعلق رہا۔ کیا کسی کے مصلوب ہونے سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں سے دست کش ہو سکتا ہے۔ صاحب یہ تو قانونی سزائیں ہیں جو انسانوں کو ملیں گی۔ حقوق کی سزائیں نہیں جیسا کہ آپ کا بھی یہی مذہب ہے پھرجبکہ یہ حالت ہے تو یہ جزائیں اور سزائیں صرف وعدو وعید کی رعایت سے ہوؔ سکتی ہیں اورکوئی صورت نہیں ہے جو اس کے برخلاف ہو۔ اوریہ بات سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ بدی پر راضی نہیں کفر پر راضی نہیں اِس سے کون انکار کرتا ہے۔ مگر جرائم اُسی وقت جرائم کہلاتے ہیں جب قانون اُن کو جرائم ٹھہراوے ورنہ دُنیا میں صدہا طور کے ناجائز اُمور ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ اگر کتاب الٰہی سے خارج ہوں تو کیونکر جرائم ہو سکتے ہیں۔ مثلًا جیسے انسان قتل و خونریزی کرتا ہے ایک درندہ بھی مثلًا شیر ہمیشہ خونریزی کرکے اپنا پیٹ بھرتا ہے اورجیسے انسان کو اپنے اُمور نکاح کے متعلق ماں بہن اور رشتوں سے پرہیز ہوتا ہے جانوروں میں یہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ بھی ہے کہ انسانوں میں شریعت کے ذریعہ سے بھی ایسے احکام بدلتے رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کو اجازت ہوئی کہ لڑائی میں جوعورتیں پکڑی جائیں اُن میں سے جس کو پسند کر لیں اپنے لئے رکھ لیں بچوں کو قتل کر دیں بیگانہ مال دروغ گوئی کے طور لے کر اپنے قبضہ میں کریں اور دُور دراز منازل تک اس پر اکل وشرب کا گذارہ ہو۔ لوگوں کے شہروں کو پُھونک دیں مگر یہ اجازت دوسری شریعتوں میں کہاں ہُوئی ۔(باقی آئندہ)