عدل کے بعد ظہور میں آوے۔ ایساہی توریت میں ہے عزرا ۳۱۱ ونحمیاہ ۳۹ و ۹۱۹ زبور ۵۸۶ و ۱۱۰۶ ۔ اور نیز آپ کا یہ قول جو بار بار پیش کر رہے ہیں جو رحم اورعدل کی گویا باہم لڑائی ہے اور اس لڑائی کے فرو کرنے کے لئے کفارہ کی تجویز ہوئی یہ آپ کا بیان سراسر غلط ہے اِس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ گُناہ اُس وقت پَیدا ہوتا ہے کہ جب اوّل قانونؔ فرمانبرداری کا شائع ہو جائے کیونکہ نافرمانی فرمانبرداری کے بعد ہوا کرتی ہے۔ پھر جبکہ یہ صورت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جب قانون نازل ہو گا اورخدائے تعالیٰ کی کتاب اپنے وعدوں کے مطابق عمل درآمد کریگی یعنی اس طرح کے احکام ہوں گے کہ فلاں شخص فلاں نیک کام کرے تو اُس کا اجر یہ ہو گا یا بدکام کرے تو اُس کی سزا یہ ہو گی تو اس صورت میں کفارہ کا دخل کسی طور سے جائز نہیں جبکہ وعدہ وعید کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے تو اس صورت میں ایک بیٹا نہیں اگر ہزار بیٹے بھی صلیب پر کھینچے جاویں تب بھی وعدہ میں تخلّف نہیں ہو سکتا اورکسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو توڑتا ہے اور جبکہ تمام مدار وعدوں پر ہے کسی حق پر نہیں ہے تو وعدوں کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے آپ کا یہ بار بار فرمانا کہ حقوق کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے مجھے تعجب دلاتاہے۔ آپ نہیں سوچتے کہ خداتعالیٰ کے مقابل کسی کا حق نہیں ہے اگر حق ہوتا تو پھر خداتعالیٰ پر صد ہا اعتراض ہر طرف سے قائم ہوتے جیسا کہ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ کیڑے مکوڑے اورہر ایک قسم کے حیوانات جو خدائے تعالیٰ نے پیدا کئے کیا یہ مواخذہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ایسا کیوں بنایا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ بھی قبل از تنزیل کتاب یعنی کتاب بھیجنے سے پہلے کسی پر مواخذہ نہیں کرتا۔ اوریوں تو خدا تعالیٰ کے حقوق اُس کے بندوں پر اس قدر ہیں کہ جس قدر اُس کی نعمتیں ہیں یعنی شمار میں نہیںآسکتے لیکن گناہ صرف وہی کہلائیں گے جو کتاب نازل ہونے کے بعد نافرمانیوں کی َ مد میں آجائیں گے اور جبکہ یہ صورت ہے تو اِس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ دراصل عام طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ وہ لا تعداد لاتحصٰی ہیں بلکہ نافرمانیوں کا مواخذہ کرتاہے۔ اور نا فرمانیاں جیسا کہ میں