کو سخت بے رحمی سے مارا اوراُن کے بچّوں کو قتل کیا۔ وہ اِس لائق ٹھہر گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کےؔ قانون جہاد کے موافق اُن کی عورتیں بھی قتل کی جائیں اُن کے بچے بھی قتل کئے جائیں اور اُن کے جوان و بڈھے سب تہِ تیغ کئے جاویں اور ان کو اپنے وطنوں سے جلا وطن کرکے اُن کے شہروں اور دیہات کو پُھونکا جائے۔ لیکن ہمارے نبی صلعم نے ایسانہ کیا بلکہ ہر طرح سے اُن کو رعایت دی یہاں تک کہ باوجود اُن کے واجب القتل ہونے کے جو اپنی خونریزیوں کی وجہ سے وہ اِس کے لائق ہو گئے تھے ان کو یہ بھی رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے اپنی مرضی سے دین اسلام اختیار کرے تو امن میں آجائے۔
اب اِس نرم اور پُر رحم طریق پر اعتراض کیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کی لڑائیوں کو مقدس سمجھاجاتاہے۔ افسوس ہزار افسوس اگر اس وقت انصاف ہو تو اِس فرق کا سمجھنا کچھ مُشکل نہ تھا۔ تعجب کہ وہ خدا جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دے دیا کہ تم مصر سے ناحق بے موجب لوگوں کے برتن اور زیور مستعار طورپر لے کر اور دروغ گوئی کے طورپر ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں کر کے پھر اپنا مال سمجھ لو اور دشمنوں کے مقابل پر ایسی بے رحمی کرو کہ کئی لاکھ بچے اُن کے قتل کر دو اور لُوٹ کا مال لے لو اور ایک حصّہ خدا کا اُس میں سے نکالو اور حضرت موسیٰ ؑ جس عورت کو چاہیں اپنے لئے پسند کریں اور بعض صُورتوں میں جزیہ بھی لیاجائے اور مخالفوں کے شہر اور دیہات پُھونکے جائیں۔ اور وہی خُداہمارے نبی صلعم کے وقت میں باوجود اپنی ایسی نرمیوں کے فرماتاہے بچّوں کو قتل نہ کرو عورتوں کو قتل نہ کرو۔ راہبوں سے کچھ تعلق نہ رکھو۔ کھیتوں کو مت جلاؤ۔ گرجاؤں کو مسمار مت کرو۔ اور اُنہیں کا مقابلہ کرو جنہوں نے اول تمہارے قتل کرنے کے لئے پیش قدمی کی ہے اور پھر اگر وہ جزیہ دے دیں یا اگر عرب کے گروہ میں سے ہیں جو اپنی سابقہ خونریزیوں کی وجہ سے واجب القتل ہیں تو ایمان لانے پر اُن کو چھوڑ دو۔ اگر کوئی شخص کلام الٰہی سُننا چاہتا ہے تو اُس کواپنی پناہ میں لے آؤ اورجب وہ سن چکے تو اس کو اُس کی امن کی جگہ میں پہنچا دو۔ افسوس کہ اب وہی خدا مورد اعتراض ٹھہرایا گیا ہے۔ افسوس کہ ایسی عُمدہ اور