بے خبر ہے ۔ اب ڈپٹی صاحب اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ گویا اس کو کلام الٰہی کے سننے کے بعد ایسی جگہ پہنچا دو جہاں سے بھاگ نہ سکے جبکہ انصاف اور فہم کایہ حال ہے تو نتیجہ بحث کا معلوم۔ آپ نہیں سمجھتے کہ کلام الٰہی کے تو یہ لفظ ہیں کہ ۱؂ یعنی پھر اس مُشرک کو اُس کی جگہ امن میں پہنچادے۔ اب ایسے صاف اور سیدھے اور کُھلے کُھلے لفظ کی تحریف کرنا اور یہ کہنا کہ ایسی جگہ پہنچا دوکہ وہ بھاگ نہ سکے اور مسلمانوں کے قبضہ میں رہے کس قدر ایک بدیہی صداقت کا خون کرناہے۔ پھر ڈپٹی صاحب اس آیت کو پیش کرتے ہیں کہ جس میں چار مہینے کے گذرنے پر قتل کا حکم ہے۔ اور نہیں سمجھتے کہ وہ تو اُن مجرموں کے متعلق ہے جو معاہدوں کو توڑتے تھے جیساکہ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے۔ ۲؂( توبہ رکوع۲) جس کا مطلب یہی ہے کہ بعد عہدوں کے توڑنے کے اُن کے قول واقرار کا کیا اعتبار رہا اور پھر فرماتا ہے ۳؂ یہ مشرک نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی قرابت کا اور حد سے نکل جانے والے ہیں اور پھر فرماتا ہے(توبہ ر ۲)۴؂ یعنی اگر یہ مشرک توڑیں قسمیں اپنی بعد عہد کرنے کے اور تمہارے دین میں طعن کریں تو تم کفر کے سرداروں سے لڑو کیونکہ وہ اپنی قسموں پر قائم نہیں رہے تاکہ وہ باز آجائیں کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول کو نکال دینے کا قصد کیا اور اُنہوں نے ہی اوّل ایذاء اور قتل کے لئے اقدام کیا۔ اَب تمام ان آیات پر نظر غور ڈال کر ایک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اِس مقام سے جبرکو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ مُشرکین عرب نے اپنے ایذاء اور خونریزیوں کو یہاں تک پہنچاکر اپنے تئیں اِس لائق کر دیا تھا کہ جَیسا کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے مَردوں کو قتل کیا اور اُن کی عورتوں