وطنوں سے نکال کر تباہی میں ڈالا اور اُن کے مالوں اورجائدادوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا اور ایسا ہی اُن کے ساتھ بھی کیا جائے ۔ لیکن خداتعالیٰ نے رحم کے طور پر جیسی اور رعائتیں کی ہیں کہ اُن کے بچّے نہ مارے جاویں اور اُنکی عورتیں قتل نہ ہوں ایسا ہی یہ بھی رعایت کر دی کہ اگر اُن میں سے کوئی مقتول ہونے سے پہلے خود بخود ایمان لے آوے تو وہ اس سزا سے بچایا جاوے جو بوجہ اس کے پہلے جرائم اور خونریزیوں کے اُس پر واجب ہوتی تھی۔ اس بیان سے سار ا قرآن شریف بھر ا ہوا ہے۔ جیسا کہ یہی آیت جو پیش کر چکا ہوں صاف صاف بیان فرما رہی ہے اور اِسکے ساتھ کی دُوسری آیت بھی یعنی اَ ۱ (۱۷)یعنی وے مظلوم جو اپنے وطنوں سے بے گناہ نکالے گئے ۔ صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر اِس کے بعد یہ آیت پیش کرتا ہوں یعنی ۲ یعنی عرب کے اُن مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالیٰ کی ہو جائے۔ اِس سے کہاں جبر نکلتا ہے۔ اِس سے تو صرف اِس قدر پایاجاتا ہے کہ اُس حد تک لڑو کہ اُن کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساد اُٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام اداکر سکیں۔ اگر اللہ جلّ شانہٗ کا ایمان بالجبر منشاء ہوتا جیسا کہ ڈپٹی صاحب سمجھ رہے ہیں تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کیلئے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کر یں اورڈپٹی صاحب موصوف نے جو مامنہ کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ تشریح غلط ہے یعنی اس آیت کی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک قرآن شریف کو سُننا چاہے تو اُس کو اپنی پناہ میں لے آؤ۔
جب تک وہ کلام الٰہی کو سُنے پھر اُس کو اُسی کے مامن میں پہنچا دو اور اس آیت کے آگے یہ آیت ہے 3 (سُورہ توبہ رکوع۱)۳ یعنی یہ رعایت اِسلئے ہے کہؔ یہ قوم