بپتسما پانے میں یسوع نے اپنی مراد آپ ظاہر کر دی ہے یعنی یہ کل راستبازی پوری ہو یعنی متابعت شریعت موجودہ کی کی جائے۔ اور واضح رہے کہ شریعت موسوی اور انبیاء سلف کا عمل عید پٹنی کوسٹ کے دن تک رہا ہے جبکہ مسیح نے جی اُٹھ کر آسمان کی طرف صعود کیا تب سے شریعت عیسوی جاری ہوئی۔ ورنہ پہلے اس کے شریعت سلف کی تھی خلف کا ذکر تک نہ تھا اَب پھر جو جناب یوحنا کو بباعث بپتسما دینے یسوع کے بڑا فرماتے ہیں۔ یوحنا خودیہ کہتا ہے کہ مَیں اُس کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے قابل نہیں اورکہ وہ برّہ ہے جو سب کے گناہوں کے واسطے ذبح ہو گا وہ جو جناب نے پھر لفظ نیک کے اوپر تکرار کیا ہے اس کا جواب بتکرار دیا گیا ہے اب اور کُچھ کہناضرور نہیں مگر اس قدر یاد دلانا کافی ہے کہ وہ خطاب جو اُس نے اُس جوان سے فرمایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ جبکہ نیک سوائے ایک خدا کے کوئی نہیں اِسی شخص سے یہ بھی اخیر میں فرمایا تھا کہ اگر تو کامل ہوا چاہتا ہے تو اپنا سارا مال عاجزوں کو تقسیم کر دے اورمیرے پیچھے ہو لے۔ لیکن وہ دلگیر ہو کے چلاگیا۔ اِ س سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ جانوں اور مالوں سب کا وہ مالک تھا اور وہ جوان نہیں مانتا تھا کہ یہ مالک ہے اس لئے اس کو متنبہ کیا گیا کہ از انجا تو مجھے خدا نہیں جانتا ۔ بروئے اعتقاد جمہور یہود کے نیک سوائے خداکے کوئی نہیں ہو سکتا تو پھر مکاری سے مجھے تو نیک کیوں کہتا ہے یہ اُس کی مکاری کی اصلاح تھی نہ کہ الوہیت سے انکار۔
۷۔ انسان مسیح کا شیطان سے آزمایا جانا کیا نقصان اُس کی الوہیت کو رکھتا ہے انسان ہو کر تو وے امتحان میں کھڑا کیا گیا اور جو آدم اُولیٰ گر کر کھو بیٹھا تھا اُس نے کھڑا رہ کر پا لیا پھر اس میں اعترؔ اض کی جگہ کونسی ہے اور شریر اپنی شرارت میں مر جائے ۔ پس یہ غلط ہے کہ شریر کو شریر بنایا گیا ہے جیسے یہ عام غلطی ہے کہ شیطان کو شیطان بنایا گیا ۔ صحیح یہ ہے کہ شیطان کومقدس فرشتہ بنایاگیا تھا پھر اس نے گناہ کرکے اپنے آپ کو شیطان بنا لیااور یہ بھی غلط ہے کہ شریر بنانے اور شریر ہونے دینے کا مآل ایک ہی ہے۔ اور وہ بچے کی مثال بھی جو جناب نے دی اس قدر اصلاح کے لائق ہے کہ اگر وہ نیک وبد کی ماہیت سے آگاہ نہیں یا طاقت نیکی کرنے