۶۔ یسوع مسیح نے کبھی اقرار اپنے گناہوں کا نہیں کیا نہ لفظاً نہ ضمناً اور نہ اس کے اوپر کبھی یہ فتویٰ لگا۔
یہ تو سچ ہے کہ قرآن انسان کو صرف جبر یہ ہی نہیں ٹھہراتا بلکہ ایک طرف جبریہ اور دوسری طرف قدریہ یعنی صاحب اختیار لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ جبر اس میں تقدیم رکھتا ہے- اور یہ دو باہم متنا قض بھی ہیں۔ چنانچہ جبر کے غلبہ کا حوالہ ہم اور آیات سے بھی دیتے ہیں۔
(۱) سورۂ نساء کے رکوع ۱۰ میں ہے جس کا حاصل معنے یہ ہیں جو کہتے ہیں کہ بھلائی اللہ کی طرف سے ہے اور برائی تیری طرف سے۔ تو کہہ ان سے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ (۲) پھر سورۂ نساء کے رکوع ۱۱ میں ہے کہ جس کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کو راہ پر نہیں لاسکتے اور اس کے واسطے کوئی راہ باقی نہیں۔ (۳) پھر سورۂ مائدہ کے رکوع ۷ میں ہے اگر خدا چاہتا تو ایک ہی دین ہر کو دیتا مگر اس کو آزمانا تمہارا مدنظر تھا۔ پھر سورۂ انعام کے ۱۷ رکوع میں ہے کہ کہتے ہیں کہ اگر چاہتا اللہ تو ہم شریک نہ ٹھہرا لیتے ایسا ہی پہلے بھی کافر کہتے رہے۔
۹۔ انسان کی فعل مختاری پر اِطلاق کا لفظ جناب نے غلط لگایا ہے بلکہ وہ اپنی حدود مُعینّہ میں پورا فعل مختار ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں مانا جو جناب فرماتے ہیں کہ فعل مختاری میں دخل غیر بھی کچھ ہے اورنہ میں کچھ کج بحثی کرتا ہوں مگر فکر ہر کس بقدر ہمت اوست یہ ضدفعل مختاری اور نامختاری انسان میں تو صرف قرآن میں ہی پائی جاتی ہے۔
۱۰۔ سختؔ دِلی فرعون کے معنی ہم بار بار کر چکے ہیں آیندہ اِسکا تکرار عبث ہے۔
۱۱۔امثال کے باب۴۱۶ میں یہ نہیں لکھا کہ شریر کو شرارت کے واسطے بنایا گیا مگر بُرے دن کی واسطے۔ جس کی شرح حزقیل کے ۲۳و۳۲ اور ۱۱ اور پطرس کے دوسرے خط ۹ ۳ میں اور پہلا طمطاؤس کے ۲۴ میں یہ لکھا ہے کہ شریروں کو مہلت نجات کی دی جاتی ہے اور خدا کی خوشی اس میں نہیں جیسا کہ قرآن آپ کے نبی کی بابت کہتا ہے کہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات معافی
مانگ اپنے گناہوں کیلئے اورمومن مَردں اور مومن عورتوں کے لئے۔