جزو پر صادق آتا ہے وہ کل پر بھی آتا ہے۔ اقانیم ثلاثہ کے بارہ میں ہم یہ صورت بیان کرتے ہیں کہ جیسے ایک شئے قائم فی نفسہ ہوتی ہے۔ اور دوسری مساوی اس کے لازم و ملزوم اس میں ہوتی ہے ویسے ہی اول اقنوم کہ جس کواب کہتے ہیں قائم فی نفسہٖ ہے اور دوسرے اقانیم یعنی ابن اور روح القدس اس میں لازم و ملزوم ہیں اور ایسی چیزیں جو ایک قائم فی نفسہٖ ہو اور دوسری لازم ملزوم ماہیت کلی کو تقسیم نہیں کرتی گو تمیز اپنی علیحدہ علیحدہ رکھتی ہے۔
۳۔ روح القدس کے بشکل کبوتر نازل ہونے پر جناب نے ایک تمسخر کیا ہے کہ کبوتر کیا شئے ہے ایک چھوٹا سا جانور۔کیوں نہ ہاتھی اور اونٹ کی شکل میں اس نے نزول کیا تو اس کے جواب میں آپ کو واضح ہو کہ کبوتر کو بے آزار کر کے لکھا ہے اور خبر دہندہ امان کا وقت طوفان نوح کے۔ اس لئے اس کی ایماء یہ تھی کہ وہ کبوتر کی شکل میں اتری اور ہاتھی اور اونٹ کو توریت میں ناپاک جانور کرکے لکھے ہیں۔ ان کی شکل میں روح القدس نہیں آسکتی تھی مگر آپ کے لطافی پر اگر کوئی کہے کہ جناب کے پیشوا نبی عرب نے کس لئے چھوٹے سے وجود انسانی میں ظہور کیا۔ کیوں نہ سیمرغ میں ظہور فرمایا۔ تو آپ اس لطافی کو کیا کہیں گے۔
۴۔ موسیؑ جب کہ کہتا ہے کہ آنے والے نبی کی جو میری مانند درمیانت میں ہوگا اس کی سنوتو کون بڑاؔ ٹھہرا وہ جس کی سنی جائے یا وہ جس کا سننا بند ہو جائے۔ پھر خط عبرانیوں کے۳۳ میں یہ لکھا ہے کہ موسیٰ گھر کا خادم تھا اور یسوع المسیح مالک۔ اور پھر موسیٰ یسوع مسیح کو پہاڑ پر ملنے کو آیا۔ یسوع اس کے ملنے کو نہیں گیا تو بڑائی کس کی زیادہ ہے۔
۵۔ یہ جناب کا خیال غلط ہے کہ کوئی معجزہ چھوٹا اور کوئی بڑا بھی ہوتا ہے۔ ایک ہی دست قدرت کی دو کاری گریاں ہوتی ہیں۔ مکھی کا بنانا اور ہاتھی کا بنانا ایک ہی قدرت چاہتا ہے مگر مجھ کو بڑا تعجب یہاں یہ ہے کہ جناب نے نبی اسلام کا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی معجزہ ثابت نہ کیاصرف دوسروں کے ہی معجزہ سے اپنا دل خوش فرمایا۔ یا اپنے کشف و کرامات کا ذکر کچھ کیا کہ جس کا ثبوت غیروں پر کبھی کچھ نہیں ہوا۔